’’تاریخ کبھی بادشاہوں کے تذکرے کانام تھا ، اب تاریخ انسانوں کی سرگذشت اور قوموں کی جدوجہد کا نام ہے - اب تاریخ کے دامن میں وہ سب کچھ ہے جو اس سے پہلے تاریخ کے سنِ گمان میں نہ تھا- اب محلوں کی روئیداد قلم کی نوک سے ہٹ کر نیزہ کی نوک پر آچکی ہے - وہ دور بیت گیا جب محلوں کے نغمے محفوظ کیے جاتے تھے - اب جھونپڑوں کے نوحے تاریخ کا حصہ ہیں -‘‘
ایسی سوچ و فکر اور تحریر و تقریر کا تخلیق کار وہی ہو سکتا ہے جو یہ کہہ سکتا ہو - کوئی چیز کسی طاقت کو پریشان کر سکتی ہے تو وہ حریف کا کریکٹر ہوتا ہے اور اسی کریکٹر کا نام آغا شورش کاشمیری ؒ ہے جن کی 45ویں برسی25 اکتوبر کو منائی جا رہی ہے -ایک عام پاکستانی شہری کی حیثیت سے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار یا تردد نہیں کہ اس معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ حقیقی اعتبار سے زمانے کی غفلت اور قلم کی عظمت بڑے آدمیوں کے حصے میں آتی ہے - کسی نے کیا خوب صورت بات کہی ہے -’’اعتراف عظمت کے لیے بھی باعظمت ہونا ضروری ہے -‘‘بقول شورش کاشمیری ؒ
دارو رسن کی گود کے پالے ہوئے ہیں ہم
سانچے میں مشکلات کے ڈھالے ہوئے ہیں ہم
وہ دولت ِ جنون جو زمانے سے اُٹھ گئی
اس دولتِ جنون کو سنبھالے ہوئے ہیں ہم
آج وطن عزیز جو ہر سچے پاکستانی کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے اس سوچ و فکر میں مبتلا ہے کہ آخر بانی پاکستان حضرت قائداعظم ؒ کے اس پاکستان کے ساتھ ہم کیا کھیل کھیل رہے ہیں -اس تمام صورت ِ حال کو دیکھتا ہوں تو مجھے والد ِ محترم شورش کاشمیری ؒ کا چار مارچ 1957ء چٹان کا ایک اداریہ ’’سپریم کورٹ کا فیصلہ ‘‘ کا ایک پیرا یاد آرہا ہے لکھتے ہیں ‘ -’’جمہوریت کی صحیح پہچان یہ ہے کہ عوام کو وو ٹ کا حق حاصل ہو - وہ تنظیم بنانے کے مجاز ہوں - ان کے خیالات پر کوئی قدغن نہ ہو اور پریس آزادی کے ساتھ اپنی بات کہہ سکے - لیکن حقیقت یہ ہے کہ ووٹ سرکاری افسروں کی مداخلت کے ہاتھوں قتل ہو گیا - سیاست دانوں نے افسروں کو استعمال کیا - افسروں نے استعمال ہو کر خود قبضہ کر لیا اور عوام متروک ہو کر رہ گئے -‘‘یہ بات سچ ہے کہ صبح اپنی آمد کے لیے کسی کا انتظار نہیں کرتی اور نہ ہی وقت کسی کا انتظار کرتا ہے - آج ’’میدان ِ سیاست ہو یا سلطنت میڈیا ‘‘ آپ نہ قائداعظم ؒ کو پاسکتے ہیں اور نہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کو حاصل کر سکتے ہیں ، نہ نواب زادہ نصراللہ خان نظر آتے ہیں اور نہ ہی سید ابو الا علی مودودی ؒ اور مولانا مفتی محمودؒ جیسے دین کے محافظ موجود ہیں، دوسری جانب حمید نظامی ؒ، مجید نظامیؒ اور شورش کا شمیریؒ جیسے صحافت کے مجاہد ناپید ہو چکے ہیں جو اقتدار کے ایوانوں میں نہیں جاتے تھے بلکہ اقتدار والے خود چل کر ان کی جھونپڑیوں میں آتے تھے ، مجھے یہاں والد ِمحترم کے چند شعر یاد آرہے ہیں فرماتے تھے - ؎
ہر اک دورِ پُرآشوب میں جواں بھی رہے
ہم اس چمن میں بہر شاخ گلفشاں بھی رہے
بہت دنوں غمِ دوراں سے رسم و راہ رہی
بہت دنوں غمِ دوراں پہ مہربان بھی رہے
بجرم عشق کئی بار دار تک پہنچے
بزیرتیغ کئی بار نیم جاں بھی رہے
غزل کے رُوپ میں گمنام تذکرے لکھے
معاملات من و تو کے راز دان بھی رہے
شکایتوں سے بہرحال واسطہ رکھا
حکایتوں کے بہر طور پاسباں بھی رہے
یہ مرحلہ میرے لیے انتہائی مشکل ہے کہ میں شورش کاشمیری ؒ کے بارے میں کچھ کہہ سکوں ، وہ شخص اپنی ذات میں انجمن تھا ، صحافت ہو، خطابت ہو یا ادب و انشا ،حقیقت تو یہ ہے کہ وہ عالمِ شباب میں اپنے اساتذہ کے ہمرکاب نظر آتے ہیںاور اپنے ہمعصروں کو بہت پیچھے چھوڑ گئے تھے -یہ خدا کی دین ہے اور اللہ تعالی کا ان پر خاص کرم تھا ، یہ تمام عنایات اور نوازشات اللہ تعالی کی طرف سے اس لیے تھیں کہ وہ سچے عاشق رسول ﷺ تھے-اور بقول شورش کاشمیری ؒ ؎
وہ شخص جو شہ کونینؐ پر فدا ہی نہیں
حیات و موت کی لذت سے آشنا ہی نہیں
سنبھال مجھ کو رسالت مآبؐ کی چوکھٹ
تیرے بغیر میرا کوئی آسرا ہی نہیں
سیر ت کانفرنس ﷺ حیدر آباد میں ایک تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ حضور کونین ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے سینکڑوں خداؤں سے نجات دلا کر بلکہ یوں کہیے کہ انہیں پاش پاش کر کے حقیقی اور ان دیکھے خدا کے سامنے نوعِ انسانی کی جبین جھکوا دیں اور انسان خواہ وہ کسی درجے میں تھے اس کی بارگاہ میں برابر کر دیے اور امتیاز ان میں یہ قرار پایا کہ بارگاہ خداوندی میں کس قدر متقی ، عالم اور امین ہیں ، گویا ایک رب کو ماننے کاخاصا یہ قرار پایا کہ امتیاز دولت ، حکومت اور وجاہت میںنہیں امتیاز کوئی ہے تو تقوی ہے ،حلم ہے یا دیانت ہے -‘‘
میں خطیب العصر ہوں ،شاہ اممؐ کے فیض سے
ہر معاصر میرے زور ِ قلم کا خوشہ چین
پاؤں کی ٹھوکر پہ رکھتا ہوں جلا ل ِ خسرواں
میرے آقا میرے مولا رحمتہ اللعالمین ؐ
وہ کہا کرتے تھے کہ بیٹا جس طرح ہر کتاب مطالعے کے لائق نہیں ہوتی اور نہ ہر مصنف‘ مصنف ہوتا ہے،کئی لوگ قلم سے مذاق کرتے ہیں ان کے نزدیک قلم کی ابکایاں اسلوب نگارش ہے -
…………………… (جاری)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38