سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر اس بے لگام ہوجانے والی مہنگائی کا کیامستقبل ہے، دیکھنے میں تو یہی آتا ہے کہ ایک بار جس چیز کی قیمت بڑھ جائے تو اس کو قابو میں لانا دشوار ہوجاتا ہے، چینی کی قیمتیں ہی دیکھ لیجئے، پھر آٹا، دال ، چاول، سبزیاں سب کچھ آپ کے سامنے ہی ہے، بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ آپ اور ہم ہی تو آخر اس کو بھگت رہے ہیں، لیکن پرسان حال کوئی نہیں، اب یہی بات تو عام عوام میں بھی مقبول ہوچکی ہے کہ گورنمنٹ جس چیز کا نوٹس لیتی ہے وہ اور زیادہ مہنگی ہوجاتی ہے اب اس کے پیچھے نجانے کون سی منطق ہے، خیر ہر گورنمنٹ نے مہنگائی کو ختم کرنے کے دعوے اور وعدے کئے ہیں لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے، کچھ دن قبل تمام چھوٹے اور بڑے اخبارات میں وزیراعظم کی جانب سے ایک اشتہار شائع ہوتا رہا ہے جس میں وزیراعظم کے کسان دوست ویژن اور وزیراعلیٰ پنجاب کی قیادت میں کسان کی خوشحالی اور پنجاب کی ہریالی کا سنہری دور کے عنوان سے زرعی ایمرجنسی پروگرا م کے تحت300 ارب روپے کے منصوبہ جات کی تفصیل دی گئی ہے، ہائے کسان کہ یہ طبقہ شروع سے ہی استحصال کا شکار رہا ہے اور بدقسمتی سے اس طبقے کی طرف کسی بھی حکومت نے کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے یہ طبقہ ہمارے معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن انتہائی غیر اہم سمجھا گیا، خیر بات تو ہورہی ہے گورنمنٹ کے منصوبہ جات کی، یہ منصوبہ جات کیا ہیں اور کسانوں کے نزدیک ان کی کتنی اہمیت ہے اور پھر زرعی پیداوار کے حوالے سے یہ کس قدر اہم ہیں اور ان سے مستقبل میں کتنے فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں اس بارے میں بھی کچھ جاننے کی کوشش کریں گے، حکومت نے کسان دوست پالیسیوں کے نتائج کے بارے میں تفصیلات جاری کی ہیں جس کے مطابق19-2018کے مقابلے میں سال 20-2019کے دوران گندم کی پیداوار میں 10لاکھ ٹن، چنے کی پیداوار میں53ہزار ٹن اضافے اور کنولہ کی پیداوار میں دوگنے اضافے کے اعدادوشمار دئیے گئے ہیںیعنی ہمیں اور آپ عوام کو خبر ہی نہیں ہے کہ ان اجناس میں یعنی ان کی پیداوار میں اس قدر اضافہ ہوچکا ہے اور ہمیں خبر تک نہیں ہے جبکہ عوام پچھلے کئی مہینوں سے گندم اور آٹے کی قلت کا شکار ہے ان کی کمی اور بڑھتی ہوئی قیمتوں نے نجانے ان کو پھر کیوں پریشان کر رکھاہے، شاید ہم لوگ ہی ناقدرے اور ناشکرے ہوچکے ہیں یا شاید یہ ہماری کم علمی کے سوا کچھ نہیں ہے اب نجانے یہ چیزیں مارکیٹوں سے کیوں ناپیداہوچکی ہیں اس کی تحقیق بھی ہمیں کرنی ہوگی، کسان کی خوشحالی اور لیبرپالیسی کے سنہری دور کے فیوض و برکات سے ہم فیض ہی حاصل نہیں کرپائے، ایک اور بات بھی سمجھ سے باہر ہے کہ ان اجناس کی دوگنی پیداوار کے بعد بھی کیا وجہ ہے کہ ہم باہر سے مہنگے داموںگندم، چنے اور کنولہ کو منگوانے کا ارادہ رکھتے ہیں ادھر اجناس کی قیمتوں میں نہ صرف اضافہ دیکھنے کا مل رہا ہے بلکہ ان کی قلت کا سامنا بھی ہر پاکستانی کو کرنا پڑ رہا ہے حالانکہ جب اجناس وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہیں تو نہ صرف ہرطرف ان کی فراوانی سامنے آتی ہے بلکہ ان کی قیمتوں میں استحکام بھی پیدا ہوجاتا ہے لیکن کسان کی خوشحالی کے پروگرام صرف کاغذوں اور اشتہاروں کی حدود تک ہوں تو حالات ایسے ہی ہوں گے جیسے آج وطن عزیز میں کسان اور عوام کے ہوچکے ہیں یہ اعداد وشمار کا ہیر پھیر آخر کن کیلئے تیار کیا جاتا ہے اب عوام بھی سادہ لوح عوام تو نہیں، سب کچھ دیکھتے اور سمجھتے ہیں سامنے کی چیزیںواضح دکھائی دے رہی ہیں نجانے پھر بیوقوف کن کو بنایا جارہا ہے اگر اس بات کو وجہ بنایا جائے کہ موسمی حالات اور بے وقت کی بارشوں سے اجناس کی قلت پیدا ہوگئی ہے توایسے موسمی حالات تو ہر سال آتے رہتے ہیں اور اجناس بھی موجود رہتی ہیں جبکہ ہر سال ہی کسان کو تقریبا"20فیصد تک ان اجناس کی کمی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اب اگر حکومت کی جانب سے20-2019کے دوران گندم کی پیداوار میں 10لاکھ ٹن، چنے کی پیداوارمیں53ہزارٹن اور کینولہ کی پیداوار میں دوگنے اضافے کا دعویٰ کیا جارہا ہے تو یہ محلِ نظر ہی ہے کسان کے نصیب میںزرعی ادویات اور کھاد کی قیمتوں میں اضافہ بھی حکومتیں لکھ دیتی ہیں اور اس بار بھی اس اضافہ کی شدت کو آپ سب بخوبی جانتے ہیں ایسی صورت میں دوگنے اجناس کی پیداوار کچھ ممکن نظر نہیں آتی، خداراعملی طور پر کسان اور عوام کیلئے کچھ کیجیے، اب ان اشتہاروں سے دل نہیں بہلتا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024