ہم گذشتہ روزکی تین اہم خبروں پر بات کریں گے۔ بلوچ طلباء کا مقدمہ کل حکومت کے سامنے پیش کیا تھا خوشی کی بات ہے کہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کی ذاتی کوششوں سے وہ مسئلہ تو حل ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ حکومت کی دو بڑی ناکامیوں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں برقرار رہنا ہے اور ساتھ ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر حکومتی ریفرنس کو بدنیتی قرار دیا ہے۔ یوں 23 اکتوبر کا دن حکومت کی دو بڑی ناکامیوں کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔حکومت کو سفارتی سطح پر بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اندرون ملک قانونی طور پر بھی بڑی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔
ہم بات بلوچ طلبا کے مسئلے سے شروع کرتے ہیں اور اس کا پس منظر اپنے قارئین کے سامنے رکھتے ہیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ڈاکٹر مجاہد کامران پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے میں نے ان سے ذاتی طور پر بلوچ طلباء کے لیے خصوصی رعایت اور تعلیم کے مواقع پیدا کرنے کی بات کی انہوں نے اس تجویز پر عملی طور پر کام کیا اور پنجاب یونیورسٹی کے دروازے بلوچ نوجوانوں کے لیے کھل گئے۔ اس دوران پنجاب یونیورسٹی میں تین بلوچ کانفرنسوں کا انعقاد بھی کیا گیا ان کانفرنسوں کے انعقاد سے بلوچ نوجوانوں میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ پنجاب صرف کہنے کو بڑا بھائی نہیں ہے بلکہ پنجاب اپنے وسائل بلوچ نوجوانوں پر خرچ کرنے میں کسی قسم کی کنجوسی یا بخل سے کام نہیں لیتا۔ ان کانفرنسوں کے انعقاد سے مل بیٹھنے اور خیالات کے اظہار کا موقع ملا، گلے شکوے دور ہوئے، روٹھے ہوئے بھائی گلے لگے، اتحاد اور اتفاق کی فضا پیدا ہوئی۔ پنجاب سے بلوچستان میں محبت اور تعاون کا پیغام گیا۔ ڈاکٹر مجاہد کامران نے بلوچوں کے لیے دروازے کھولے تو انہیں مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن انہوں نے مخالفت کا مقابلہ کیا اور دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کی سرپرستی اور ان کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع پیدا کرنے کے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ مجھے خوشی ہے کہ بلوچ نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے یکساں مواقع مل رہے ہیں اور اس بات کی زیادہ خوشی ہے کہ بلوچ طلباء کو آج بھی ان کا حق مل رہا ہے جو پودا میں نے لگایا تھا وہ پھل بھی دے رہا ہے اور بلوچ نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے مواقع مل رہے ہیں۔ بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کے بلوچ طلباء کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے اور جیسے یہ مسئلہ حل ہوا ہے اس میں بھی گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے ذاتی دلچسپی لی ہے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں انہوں نے ایک چانسلر سے زیادہ ایک بڑے اور علم دوست شخصیت کی حیثیت سے یہ مسئلہ حل کیا ہے ان کی ذاتی کوششوں سے لگ بھگ بیس ہزار طلبا مختلف سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیوں میں سکالر شپ حاصل کریں گے۔ اس کام کے لیے گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے مختلف این جی اوز اور دیگر اداروں سے درجنوں ملاقاتوں کے بعد دیگر صوبوں کے حقدار طلباء کو ان کا حق دلایا ہے۔ ان کوششوں پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ بیس ہزار طلباء کے لیے مفت یا سستی تعلیم کو ممکن بنانا قومی خدمت ہے۔ یہ عمل ثابت کرتا ہے کہ اگر نیک نیتی سے کام کیا جائے تو مثبت نتائج ضرور آتے ہیں۔ اس کا دوسرا پہلو خیبر پختونخوا اور بلوچستان حکومتوں کی بے حسی ہے۔ دونوں صوبوں کی حکومتیں آج تک اپنے نوجوانوں کے لیے بہتر تعلیم کا بندوبست کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اگر یہ سہولت ان صوبوں کے نوجوانوں کو اپنے علاقوں میں دستیاب ہو تو انہیں پنجاب کی طرف سفر نہ کرنا پڑا۔
میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف بھی بلوچ طلباء کے احتجاج میں پہنچیں ان کی یہ حرکت اور سیاسی شعبدہ بازی خود ان کے والد میاں نواز شریف جو کہ تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہے ہیں ان کے خلاف چارج شیٹ ہے۔ میاں نواز شریف تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہے اور انہوں نے تینوں ادوار میں دیگر صوبوں میں کوئی کام نہیں کیا اگر میاں نواز شریف اپنے دور حکومت میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اعلیٰ تعلیم کی بہترین سہولیات فراہم کرتے تو آج بلوچ نوجوانوں کو ان تکالیف سے نہ گذرنا پڑتا۔ مریم نواز کی اس شعبدہ بازی کا مقصد پنجاب اور بلوچستان میں نفرت پھیلانا اور صوبوں کے مابین تعلقات کو خراب کرنا ہے جب وہ بلوچ طلباء کے پاس بیٹھی تھیں تو اپنے والد کی کارکردگی پر بھی روشنی ڈال دیتیں۔ آج خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے نوجوان میاں نواز شریف سے سوال کرتے ہیں پینتیس سال تک ان کا استحصال کیوں کیا گیا، کیوں انہیں بہتر تعلیم کے مواقع فراہم نہیں کیے گئے۔ سیاست دان اپنی لوٹ مار تو کرتے رہے لیکن صوبوں میں تعلیم کے شعبے پر کوئی کام نہیں کیا۔ ان بیس ہزار سکالر شپس کا کریڈٹ کسی اور کو نہیں صرف گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کو جاتا ہے جنہوں نے پانچ چھ ماہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ذاتی حیثیت میں کام کیا ہے۔ کیا ایک گھنٹے میں بیس ہزار سکالر شپس کا انتظام ممکن ہے یقیناً نہیں مریم نواز شریف کی اس کارروائی سے صرف صوبوں میں نفرت ہی پھیل سکتی ہے انہوں نے اس نازک اور حساس معاملے کو بھی سیاست کی نذر کر دیا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کا یہی المیہ ہے کہ ہر معاملے سیاست کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اس کے نتائج کچھ بھی ہوں۔ ہمیں حالات کو دیکھتے ہوئے قومی اتفاقِ رائے اور صوبوں کے مابین اتحاد کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
یہ جمعہ حکومت کو ناکامیوں کے طور پر یاد رکھتے ہوئے مستقبل میں بہتر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دینا حکومتی ناکامی ہے جس طرح سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں اس ریفرنس کے پرخچے اڑائے ہیں اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ریفرنس فائل کرتے وقت کن بنیادی نکات کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ جلد بازی میں کیے گئے اس کام کی وجہ سے حکومت کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ حکومت کے سب سے پسندیدہ، لاڈلے اور شاید ملک میں موجود اکلوتے قانون دان بیرسٹر فروغ نسیم کے حوالے سے سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں جو لکھا ہے اس پر حکومت کی آنکھیں کھل جانی چاہییں۔ چار ماہ کے بعد سات ججز نے ایک سو تہتر صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے۔ ریفرنس کالعدم قرار دینے کی سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ صدر اور وزیر اعظم نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف تفتیش کی منظوری نہیں دی، یہ منظوری غیر آئینی و غیر قانونی طور پر وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے دی۔ وجوہات میں صدر پاکستان عارف علوی کے کردار پر بھی سوالیہ نشان ہے صدر پاکستان نے بھی آئینی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ اس ریفرنس میں وزیر قانون اور اس وقت کی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان وجہ بنی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے لیے ان کے وزیر اور مشیر مسائل حل کرنے کے بجائے مسائل کو الجھانے اور حکومت کو پھنسانے میں زیادہ مہارت رکھتے ہیں اور وہ اس کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ قانونی معاملات میں جذباتی طرز عمل یا بغیر سوچے سمجھے فیصلے کرنے کے ایسے ہی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اس فیصلے سے دنیا بھر میں یہ پیغام گیا ہے کہ پاکستان کی حکومت عدلیہ کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے یا عدلیہ کو دباؤ میں لانا چاہتی ہے۔ اندرونی طور پر بھی حکومت پر دباؤ بڑھے گا، تلخیاں پیدا ہوں گی اور عوام میں بے چینی پھیلے گی۔ میڈیا پر حکومت کے پاس دفاع میں کچھ نہیں ہو گا۔ کیا ان مشکل حالات اور اس کے اثرات کا جائزہ ریفرنس دائر کرنے سے پہلے نہیں لینا چاہیے تھا۔ اب بھی وقت ہے حکومت اہم اور حساس معاملات میں سنجیدہ رویہ اختیار کرے۔ بالخصوص قانونی معاملات میں بہتر افراد کو شامل کرے۔ معاشی ٹیم کی غلطیوں، ناقص حکمت عملی کا نقصان بھی عوام کو اٹھانا پڑتا ہے اور وزیراعظم عمران خان کی ساکھ خراب ہوتی ہے۔ قانونی مشیروں کے غلط مشوروں کا حال بھی سب کے سامنے ہے۔ ایک ایسا شخص جسے اس کی اپنی جماعت بھی قبول یا تسلیم نہیں کرتی اس کو اہم ذمہ داری دینے کا انجام سب کے سامنے ہے۔
پاکستان آئندہ سال فروری تک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہے گا۔ یہ بھی حکومت کی ناکامی ہے کیونکہ تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکی پاکستان کو اس لسٹ سے نکلنے کے لیے مزید چھ نکات پر عمل کرنا ہو گا۔ پاکستان ابھی تک ہائی رسک ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان جون دو ہزار اٹھارہ سے اس فہرست میں شامل ہے جب کہ دو ہزار بارہ سے پندرہ تک پاکستان واچ لسٹ میں رہا ہے۔ انتہائی خطرے کی بات یہ ہے کہ پاکستان اب بھی دہشت گردی کی مالی معاونت کے حوالے سے خطرناک ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ حکومت نے اس فہرست سے نکلنے کے لیے کوششیں بھی کیں، عوام کو عام آدمی کے مسائل کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس پر کام کیا لیکن اس کے باوجود کامیابی نہیں مل سکی۔ آئس لینڈ اور منگولیا گرے لسٹ سے نکل گئے جبکہ پاکستان اب تک خطرناک ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ کل کیا ہوتا ہے حکومت کامیاب ہوتی ہے یا نہیں حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں لیکن آج کی خبر یہی ہے کہ پاکستان اپنا ہدف حاصل نہیں کر سکا۔ عالمی واچ لسٹ میں شامل ہونے سے پہلے سے تباہ حال اور کمزور ملکی معیشت پر مزید برے اثرات مرتب ہوں گے۔ آئندہ برس فروری تک ایک مرتبہ پھر ہم پر تلوار لٹکتی رہے گی۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی بین الاقوامی سطح پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے اقدامات اٹھاتی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کو اب نئی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا ویسے آنے والے دنوں میں ملک کے سیاسی حالات کے پیش نظر ہمیں آئندہ برس فروری سے بھی بہت زیادہ امیدیں نہیں لگانی چاہییں کیونکہ اندرونی حالات ایسے نہیں کہ حکومت اتفاق رائے سے بہت بڑے بڑے کام کر سکے، سیاسی حالات کشیدہ ہیں، دہشت گردوں کے حملے جاری ہیں۔ ان حالات میں یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ سب کچھ آسانی سے ہو جائے گا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024