نظریہ پاکستان کیا ہے؟
نظریہ پاکستان‘ جسم پاکستان کی روح ہے۔ جس کی اہمیت و افادیت پاکستان کی زندگی کیلئے لازمی ہے۔ اس لئے نظریہ پاکستان ہر پاکستانی کے قول و عمل میں تندرست و توانا رہنا چاہئے۔ برصغیر پاک و ہند میں تقسیم برصغیر سے پہلے ہندو مسلم اور دیگر اقوام مل کر رہتے۔ ہندو غالب اکثریت میں تھے۔ ان کی تہذیب‘ طرز بود و باش‘ فکر و نظر کردار و عبادات‘ طرز معاشرت و معیشت متضاد و متصادم تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب دونوں بڑی قوموں کا ایک ہی ملک میں جمہوری طرز حکومت کے ساتھ رہنے کے آثار نا پیدہو گئے تو رہبران و زعما و ذمہ داران مسلم امہ نے اپنے لئے علیحدہ وطن کے حصول میں ہی عافیت و خیریت محسوس کی۔ آج ثابت ہو چکا ہے کہ قبل از تقسیم جو منافرت ‘منافقت‘ تشدد آمیز رویہ ہندوؤں نے اپنایا اس نے غالب مسلمان علاقوں میں مسلسل ہندو مسلم فساد کا باعث بنے رہنا تھا۔ آج بھی ہندوستان بھر میں جتنی تکلیف دہ سیاسی و معاشرتی صورتحال مسلمانوں کیلئے ہے وہ عالم اسلام کیلئے مسلسل فکر مندی کا باعث ہے۔ ہندو متعصب‘ توہم پرست‘ بتوں کے پجاری‘ جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے اور مکاری میں ید طولیٰ رکھتے ہیں جھوٹ ‘ فراڈ‘ وعدوں سے مسلسل انکار و فرار اس کی سیاست کا اہم ترین ستون ہے۔ وہ ہر مکاری‘ چالاکی‘ ہوشیاری سے اپنے مقاصد کے حصول کو اہمیت دیتا ہے۔ 1948 ء سے ہی پیدا ہونے والے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے وہ کبھی سنجیدہ نہیں رہا اور نہ ہی کبھی سنجیدہ ہو گا کیونکہ وہ دھوکہ دہی کے ذریعے صرف وقت گزارنے کی پالیسی پر آمادہ ہے۔ ہندو کی کینہ پروری اب کھل کر پوری طرح دنیا کے سامنے آ گئی ہے۔ وہ پاکستان کو دو لخت کرنے کے سنگین جرم کا اقرار سر عام کر چکا ہے۔ ان حالات میں جب ہندوستان کھل کر پاکستان کے
جانی دشمن کے روپ میں سامنے آ گیا ہے۔ آج قائداعظم ؒ‘ ڈاکٹر علامہ اقبالؒ‘ نواب لیاقت علی خان‘ سردار عبدالرب نشتر‘ سرسید احمد خاں‘ مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا شوکت علی جوہر‘ مجید نظامی‘ حمید نظامی اور دیگر رہبران جدوجہد آزادی کی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کرنے کو دل کرتا ہے کہ اپنی روشن بصیرت کے ساتھ انہوں نے مستقبل کے ہندو برہمن کی فکر کا قبل از وقت اندازہ لگا لیا۔ 1944 ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں قائداعظمؒ نے ایک مرتبہ اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا تھا’’پاکستان اسی دن وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی‘‘ہندو کی تنگ نظری‘ تعصب‘ توہم پرستی کے مسلسل طرز فکر و عمل سے ہندو آج بھی ہندوستان میں مسلسل اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام کے دائرہ امن میں داخل ہو رہے ہیں۔ اسلام ایک فراخ دلانہ‘ مساوات‘ بھائی چارے اور انسانی رشتوں‘ رویوں کو اہمیت دینے والا مذہب ہے۔ اسلام میں ہر انسان کیلئے پناہ ہے ۔ یہاں کم تر اور اعلیٰ غریب اور امیر ہر شخص برابر ہے۔ یہاں اونچ نیچ کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام میں کوئی شودر نہیں۔ اسلام میں کوئی کمترین نہیں۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
جبکہ ہندو مذہب میں ذات پات کی تفریق اس مذہب کی سب سے بڑی تعلیم ہے۔ ایک وقت تھا جب کوئی شودر ہندوؤں کی کتاب ’’گیتا‘‘ کا کوئی اشوک سن لیتا تو اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا جاتا تھا۔ ایسی متعصب قوم کے ساتھ آج کے ہندوستان میں مسلمانوں سمیت جتنی بھی اقلیتیں گزارا کر رہی ہیں وہ دراصل ہر دن مرتی ہیں اور ہر دن دوبارہ زندہ ہوتی ہیں۔ ہندوستان میں اقلیتوں پر ہر دن نئے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ ظلم و ستم وہاں بہت ارزاں ہے۔ انسانیت عملاً دم توڑ چکی ہے۔ کشمیر میں ہر روز بھارت نئے مظالم کے طوفان برپا کرتا ہے۔ قبل از تقسیم ہندوستان اور آج بھی ہندوؤں کے برتن‘ گلاس الگ اور مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے لئے الگ ہیں کیونکہ ہندوؤں کا یہ عقیدہ ہے کہ غیر ہندو کے چھو لینے سے ان کے برتن ناپاک ہو جاتے ہیں۔ ہندوؤں میں چھوت چھات کا چلن بہت عام ہے۔ آج کے ہندوستان میں بھی بسنے والی تمام اقلیتوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کو اسی قسم کے متشددانہ‘ تلخ و ترش‘ جاہلانہ اور جابرانہ طرزعمل کا سامنا ہے۔ ایسی صورتحال میں آج ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں پر نظریہ پاکستان کی اہمیت و افادیت مزید کھل کر سامنے آ گئی ہے جبکہ پاکستان میں بسنے والے مسلمان اپنے اس اولین سبق سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔وہ ایسا سہواً نہیں کر رہے بلکہ اس کے پیچھے بھی ہندوستانی میڈیا کی مسلسل یلغار ہے۔ وہ اپنی اصل تہذیب و ثقافت کے قبیح طور
اطوار کو چھپا کر نوخیز اداکاراؤں کی دلفریب اداؤں کے ذریعے پاکستان کی نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کی کوششوں میں مسلسل لگا ہوا ہے۔ ہندوستانی فلموں نے کیبل نیٹ ورک‘ ڈش‘ کمپیوٹر اور ٹیلی ویژن کے ذریعے پاکستان کی نوجوان مسلم نسل کو نظریہ پاکستان سے بیگانہ کردینے کیلئے اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے۔ آج کے میڈیا کے زمانہ میں پاکستان نے عملاً اپنے فلم کے میڈیا کا گلا گھونٹ دیا ہے حالانکہ مسلم فکشن‘ تخیل اور کہانی کا ایسا جوڑ توڑ ہے جو انسان کو دلچسپی کے نئے جہانوں سے متعارف کراتا ہے اور ایک نظریاتی اور وژنری لکھاری اس کے ذریعے بہتر انداز میں اپنے نظریہ کو پیش کرسکتا ہے۔ ماضی میں پاکستان میں بہت اچھی فلمیں بنتی رہی ہیں۔ پاکستان میں فلم انڈسٹری کے خاتمہ میں بھی ضرور کسی ہندوستانی سازش کا ہاتھ محسوس ہوتا ہے۔ ہندوستان اپنی دشمنی کے جذبات کی تسکین کیلئے پاکستان کے ہر شعبہ پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ وہ ہماری ثقافت‘ ہماری معیشت‘ ہمارے ترقیاتی منصوبوں‘ ہمارے میڈیا پر خاص طور پر فوکس کئے ہوئے ہے۔ہمیں ان گھمبیر حالات میں اپنے تمام شعبوں میں نظریہ پاکستان کا واضح ادراک رکھنے والے لوگوں کو آگے بڑھانا چاہئے تاکہ پاکستان اپنے نظریہ کی روشنی میں نہ صرف یہ کہ ترقی کر سکے بلکہ اپنے نظریہ میں توانائی و رعنائی کی خوشبو بڑھا کر اپنے قیام کے اصل مقاصد کے حصول کیلئے بھی آگے بڑھ سکے۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو نظریہ پاکستان کی اصل ماہیت‘ اہمیت‘ نوعیت سے آگاہ رکھنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں اور خاص طور پر ہندوستان کی اصل معاشرت کو عام پاکستانی کے سامنے پیش کرنے کے لئے اپنے میڈیا کو متحرک کرنا چاہئے۔