اَپناکَر یا میرا ہو
سابق سینیٹر نہال ہاشمی کو عزت شاید راس نہیں، عدلیہ پر تنقید کر کے وہ پابندِ سلاسل رہ چکے، رہا کیا ہوئے کہ پھر آپے سے باہر ہو گئے۔ بڑی مشکل سے معافی تلافی پر جان چھوٹی۔ لیکن اب کی بار تو انتہا ہی کر دی۔ ایک ایسے موقع پر جب کہ بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت ہماری افواج کو بدنام کرنے کی مہم چل رہی ہے۔ اندرون ملک ایسا پراپیگنڈہ انتہائی شرمناک اور غلیظ حرکت ہے کہ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ حیرت ہے کہ تقریباً سارے چینلز نے بھرپور کوریج دی اور اس حرکت کو بار بار دکھایا۔ ’ن‘ والے بظاہر نہال ہاشمی کو ’’عاق‘‘ کر چکے ہیں مگر ہر اہم موقع پر یہ نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے موصوف کو ذہنی بیمار قرار دیا۔ کچھ عرصہ قبل ڈان لیکس میں بھی ایسی ہی حرکت کی گئی تھی۔ قوی یقین ہے کہ شاہد خاقان عباسی جلد ہی ’’کسی‘‘ اور کو ذہنی مریض قرار دیں گے۔ غداری کیس کی سماعت کے دوران نواز شریف نے فرمایا کہ کیا میں غداری کا سوچ بھی سکتا ہوں؟ اپنے گذشتہ کالم ’’کافی کا صرف ایک کپ‘‘ میں اس خاکسار نے وزیراعظم عمران خان کی توجہ ان کی اپنی پارٹی کے کچھ لیڈروں کی طرف مبذول کروائی تھی۔ ان کے قول اور فعل میں تضاد کا ذکر کیا تھا۔ ان کی گزشتہ 50 روزہ مایوس کن کارکردگی کی بات کی تھی۔ مگر تازہ ترین ملنے والی اطلاعات کے مطابق عمران خان نے ان تمام امور پر بھرپور توجہ دی ہے۔ پارٹی میں گروپ بندی کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور لوگوں کو (enough is enough) کا پیغام دیا ہے۔ سردار۔ وڈیرے اور نواب جو دل سے عثمان بزدار جیسے چیف منسٹر کو قبول کرنے سے گریزاں تھے انکو سخت پیغام دیا ہے کابینہ کے اجلاس میں تمام ممبران کو کھل کر تنبیہ کی ہے کہ وعدے ہر صورت میں پورے ہونے چاہئیں اور اچھی کارکردگی دکھانے والے وزرا ہی مستقبل میں اپنا مقام بنا سکتے ہیں۔ اسی طرح معیشت کی بہتری کے لیے ذاتی طور پر متحرک ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ کالم چھیننے تک وہ سعودی عرب کا دورہ مکمل کر چکے ہونگے۔ اس کے بعد انہوں نے ملائیشیا اور پھر چین کا دورہ کرنا ہے۔ اس بار انہوں نے اپنی ترجیحات کو ا زسر نو مرتب کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر کے عالمی رہنما عمران خان کی شخصیت کو پسند کرتے ہیں۔ انہیں یہ معلوم ہے کہ پاکستان میں طویل عرصہ بعد ایک ایسا وزیراعظم آیا ہے کہ جس کا دامن کسی بھی کرپشن سے پاک ہے جو پوری نیک نیتی اور خلوصِ دل سے پاکستان کی خدمت کرنا چاہتا ہے۔ جو مقامی، ریجنل اور بین الاقوامی اُمور پر مکمل دسترس رکھتا ہے اور حقیقت میں ان کے مثبت حل کے لیے کوشاں ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ اپنے عوام کا طرزِ زندگی بہتر کرنا چاہتا ہے۔ اسی طرح انوسٹرز کو بھی اعتماد ہے کہ کمیشن اور کک بیکس دئیے بغیر پاکستان میں مختلف پراجیکٹس پر کام کیا جا سکتا ہے۔ رب کو منظور ہوا تو اب کی بار عمران خان کامران ہو کر لوٹے گا۔
اندرون ملک سابق صدر آصف علی زرداری نے اپوزیشن کو متحد ہو کر گورنمنٹ کو ٹف ٹائم دینے کی بات کی ہے جس کی ’ن‘ نے بھی پذیرائی کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب اپوزیشن والے کچھ بھی کر لیں یکے بعد دیگرے انہوں نے احتساب کے سخت شکنجے میں جکڑے جانا ہے۔ آئی بی اور ایف آئی اے نے جو معلومات عمران خان کو فراہم کی ہیں وہ دیکھ اور سن کر وزیراعظم سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا سیاستدان ہو کہ جس کے ہاتھ صاف ہوں۔ تاہم باخبر ذرائع کے مطابق عمران خان نے بھی فیصلہ کر لیا ہے کہ کچھ بھی ہو کسی کو بھی نہیں چھوڑنا اور ملک کی لوٹی ہوئی دولت کا حساب لینا ہی لینا ہے بھلے ان کو اس کی کتنی ہی بڑی قیمت کیوں نہ ادا کرنا پڑے۔ راوی یہ بھی اطلاع دے رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے بھی وزیراعظم کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ جہاں تک ملکی مفادات کا تعلق ہے وہ ہر طرح کا تعاون فراہم کریں گے۔ آپ صرف پانی کے معاملہ کو ہی دیکھ لیں۔ غضب خدا کا گزشتہ تیس سالہ دورِ حکومت میں کسی کو بھی یہ ادراک نہ ہو سکا کہ 2025ء تک ہمارے ہاں پانی کی سطح کہاں تک پہنچ چکی ہو گی۔ پانی کے ذخائر اور ڈیمز ہمارے لیے کس قدر ضروری ہیں۔ تاہم اب ہمیں وار فٹنگ پر اس ایشو پر کام کرنا ہو گا۔ صرف حکومت ہی نہیں ہر پاکستان کا یہ فرض ہے کہ وہ اس مہم میں بھرپور کردار کرے۔ عمران خان کو بیرون ملک پاکستانیوں سے بے حد اُمیدیں وابستہ ہیں۔ بیرون ملک پاکستانی کچھ انتظار میں ہے سانپ کا ڈسا رسی سے بھی ڈرتا ہے ان کا اعتماد قدرے بحال ہو جائے وہ توقعات سے بھی زیادہ اپنا سب کچھ اپنے وطن کی مٹی کی خاطر قربان کر دیں گے۔ مجھے قوی یقین ہے کہ عمران خان انہیں قطعاً مایوس نہیں کریں گے۔میرا کچھ تھنک ٹینکس کی میٹنگز، کانفرنسز اور سیمینار میں مسلسل آنا جانا رہتا ہے اور میں یہ لکھنے میں قطعاً عار محسوس نہیں کرتا کہ درحقیقت ہم اس وقت بہت ہی برے حالات سے گزر رہے ہیں۔ سابقہ دور حکومتوں نے اداروں کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے ۔ 80 فیصد اداروں کے پاس تنخواہ دینے کے پیسے بھی نہیں ہوتے۔ ایڈہاک ازم پر معاملات چل رہے ہیں۔ دوسری طرف ہماری عوام مختلف طبقوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک طبقہ ایسا ہے کہ جنہیں سرے سے کھانا ملتا ہے۔ اور نہ کوئی اور سہولت، دوسرا سفید پوش طبقہ ہے جو انتہائی کسمپرسی میں زندگی گزار رہا ہے اور ایک طبقہ تو ایسا ہے کہ جن کے کتوں کا ایک دن کا خرچہ غریب آدمی کی ماہانہ آمدنی سے بھی زیادہ ہے۔ ایسی معاشرتی ناہمواری شدید طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ عمران خان جب بھی مکہ اور مدینہ گئے دل کی گہرائیوں سے یہی دعا کی کہ رب العزت اپنے حبیب پاکؐ کے صدقے اگر تو نے مجھے اس منصب تک پہنچایا ہے تو مجھے کامیابی بھی عطا کر۔ ہماری بھی دعا ہے کہ اللہ کریم ہمارے ملک اور قوم پر خصوصی مہربانی فرمائیں۔ اختتام اپنے ایک عزیز دوست کرنل ظفر وڑائچ کے بھیجے ان پنجابی کے اشعار پر:
مَرمَر ا کے پُہنچے آں
اِنج نہ سَجناں بُوہَا ڈھو
میرے کول نے گَلاّں دو
اَپنا کَر یا میرا ہو