بھارت کیجانب سے کنٹرول لائن پر بھاری ہتھیاروں کی منتقلی پر پاکستان کا اقوام متحدہ سے رجوع
پاکستان نے بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر بھاری ہتھیاروں کی منتقلی اور جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھاتے ہوئے بھارتی کارروائیوں کا نوٹس لینے کا تقاضا کیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے یواین سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس اور سلامتی کونسل کے چیئرمین کو مراسلہ بھجوایا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ہفتے بھارت نے ایل او سی کو نشانہ بنانے کیلئے کشمیر میں بڑے ہتھیار لانچ کئے جبکہ بھارت کی جانب سے 13 برس میں اس طرح کے ہتھیاروں کا استعمال پہلی بار کیا گیا ہے۔ مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ خطے میں امن و سلامتی کو کمزور کرنے کے حوالے سے بھارتی اقدامات سے واضح اشارے مل رہے ہیں۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے باور کرایا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر سیزفائر کی خلاف ورزیوں کا مقصد بھارت کی جانب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بین الاقوامی توجہ ہٹانا ہے اس لئے اقوام متحدہ کو بھارتی عزائم و اقدامات کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ علاقائی اور عالمی امن کی مسئلہ کشمیر کے قابل عمل اور ٹھوس حل سے ہی ضمانت مل سکتی ہے اور جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا‘ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر اس خطے اور اقوام عالم میں امن و سلامتی پر ہمہ وقت خطرے کی تلوار لٹکتی رہے گی۔ پاکستان اور بھارت کے ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے امن و سلامتی کو لاحق خطرات مزید سنگین ہوچکے ہیں کیونکہ بھارت کے بڑھتے ہوئے جنگی جنون سے کسی وقت بھی دونوں ممالک میں جنگ کی نوبت آسکتی ہے جو اس بار روایتی جنگ ہرگز نہیں رہے گی اور کسی بھی مرحلے پر ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو جائیگی جس کے اس کرۂ ارض پر ممکنہ نقصانات کا اندازہ امریکہ کی جانب سے دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی میں برسائے گئے ایٹم بموں کی تباہ کاریوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس وقت تو ایٹمی ٹیکنالوجی ابتدائی مراحل میں تھی اور امریکہ کے بنائے گئے ایٹم بم زیادہ طاقتور نہیں تھے‘ اسکے باوجود ان ایٹم بموں سے دونوں شہر مکمل طور پر تباہ ہو گئے اور وہاں سے نسل انسانی اور چرند پرند سمیت ہر ذی روح کا مکمل صفایا ہو گیا جبکہ ایٹمی تابکاری کے اثرات پورے خطے میں سالہا سال قائم رہے۔ آج کی ایٹمی ٹیکنالوجی تو 40ء کی دہائی سے 70, 60 گنا زیادہ ترقی کرچکی ہے اور ہائیڈروجن بم سے بھی اگلے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔
پاکستان بے شک بھارت کے ہاتھوں اپنی سلامتی کو لاحق سنگین خطرات سے اپنے تحفظ کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول پر مجبور ہوا جبکہ بھارت نے 1974ء میں اپنا پہلا ایٹمی تجربہ کرلیا تھا۔ اس وقت سے اب تک ان دونوں ممالک نے ایٹمی ٹیکنالوجی کی کتنی استعداد حاصل کی ہے‘ اس کا جائزہ لیتے ہوئے انسانی حقوق کے چیمپئن عالمی اداروں اور عالمی قیادتوں کو علاقائی اور عالمی امن کو لاحق سنگین خطرات کا بخوبی ادراک ہو جانا چاہیے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کو اس وقت ایٹمی ٹیکنالوجی میں بھارت پر سبقت حاصل ہے جس کے پاس 105 سے 110 تک ایٹمی وارہیڈز موجود ہیں جبکہ بھارت کے پاس ایک سو کے قریب ایٹمی وارہیڈز موجود ہیں۔ اسی طرح ایٹمی میزائلوں کی استعداد میں بھی پاکستان کو بھارت پر سبقت حاصل ہے تاہم پاکستان نے اپنی ایٹمی ٹیکنالوجی مکمل محفوظ ہاتھوں میں رکھی ہوئی ہے اس لئے اسکے بے مقصد استعمال کا کوئی احتمال نہیں مگر بھارت جس جارحانہ انداز میں اپنی جنگی جنونیت بڑھا رہا ہے اور پاکستان کی سلامتی کو چیلنج کرتے ہوئے اس پر سرجیکل سٹرائیکس کی دھمکیاں دی جارہی ہیں‘ وہ جنگی سازو سامان کی تعداد و استعداد میں اپنے سے چار گنا زیادہ طاقتور اس بھارت کی جنونیت کا توڑ اپنی ایٹمی ٹیکنالوجی بروئے کار لا کر ہی کر سکتا ہے۔ اسکے بعد جو ہوگا‘ اسکی خبر دینے اور نقصانات کے اعداد و شمار بتانے کیلئے بھی شاید اس کرۂ ارض پر کوئی انسان موجود نہیں رہے گا۔
بھارت کی مودی سرکار تو جنگی جنونیت میں باولی ہوئی بیٹھی نظر آتی ہے جو نہ صرف یواین قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو حق خودارادیت دینے پر آمادہ نہیں بلکہ مودی سرکار نے پاکستان سے ملحقہ آزاد جموں و کشمیر اور شمالی علاقہ جات پر بھی اپنی بدنظریں گاڑھ رکھی ہیں جسے اب ٹرمپ مودی گٹھ جوڑ نے مزید حریض بنا دیا ہے چنانچہ بھارت حیلے بہانے سے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کے موقع کی تاک میں بیٹھا ہے۔ اس صورتحال میں اسکی معمولی سی حماقت سے جنگ کی نوبت آگئی تو اس کرۂ ارض کی ہئیت ہی تبدیل ہو جائیگی۔ اس تناظر میں مسئلہ کشمیر کے مستقل اور پائیدار حل کے ذریعے پاکستان اور بھارت میں مفاہمت عالمی قیادتوں اور اداروں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے مگر مودی جیسے ہی جنونی امریکی صدر ٹرمپ تو بھارت کو پاکستان پر چڑھ دوڑنے کیلئے شہ دے رہے ہیں۔ بے شک انہوں نے گزشتہ سال نومبر میں پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کیلئے کردار ادا کرنے کی پیشکش کی تھی مگر اسکے بعد انہوں نے بھارت کے ساتھ جدید ہتھیاروں کی فراہمی کے معاہدے کرکے اور دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کے حوالے سے بھارتی لب و لہجہ میں ہم سے ڈومور کے تقاضے کرکے خود کو عملاً بھارت کے ساتھ پارٹی بنالیا اس لئے اب ان سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کا کردار ادا کرنے کی بھلا کیا توقع وابستہ کی جا سکتی ہے۔ اگر وہ فی الواقع مسئلہ کشمیر حل کرانے میں سنجیدہ ہوں تو اس کیلئے انکے ثالثی کے کردار کی بھی ضرورت نہیں‘ وہ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کیلئے یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں پر اپنے ’’فطری اتحادی‘‘ بھارت سے عملدرآمد کرادیں۔ اسکے بعد کشمیری عوام خود ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرلیں گے۔ اس طرح پاکستان اور بھارت کے مابین تقسیم ہند کے وقت سے ہی جاری تنازعہ کشمیر بھی طے ہو جائیگا اور علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو لاحق خطرات بھی ٹل جائینگے۔
درحقیقت دونوں ممالک میں ثالثی کی پیشکش تو امریکی صدر اوبامہ بھی کرچکے ہیں۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل اور یورپی یونین کے سپیکر کی جانب سے بھی ثالثی کی پیشکش کی گئی تھی جبکہ چین کے صدر تو متعدد بار ثالثی کی پیشکش کرچکے ہیں مگر بھارت نے نہ صرف ثالثی کی ہر پیشکش کو رعونت کے ساتھ ٹھکرایا بلکہ کسی بھی سطح پر پاکستان بھارت مذاکرات کی نوبت ہی نہیں آنے دی اور گزشتہ ماہ ستمبر میں یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر پاکستان کے ساتھ انتہائی معاندانہ رویہ اختیار کرکے بھارت عملاً مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرچکا ہے جبکہ اسکی جنگی تیاریوں‘ کنٹرول لائن پر بھاری ہتھیاوں کی تنصیب‘ مقبوضہ کشمیر میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور اسکی سول اور عسکری قیادتوں کی جانب سے پاکستان کو تسلسل کے ساتھ دی جانیوالی سرجیکل سٹرائیکس کی دھمکیوں سے علاقائی اور عالمی امن کو تہہ و بالا کرنیوالے اسکے عزائم مکمل بے نقاب ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے اسی بنیاد پر اقوام متحدہ سے بھارتی عزائم و اقدامات کا فوری نوٹس لینے کا تقاضا کیا ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں کے ہاتھوں جاری کشمیری عوام کے قتل عام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان بھارت فوری مذاکرات کے ذریعہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کا تقاضا کیا ہے۔ اگر بھارت کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں اور پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر پر بھی اپنا حق جتا رہا ہے جس کے بارے میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں تو وہ اور کس ایشو پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کر سکتا ہے۔ اس تناظر میں اسکی مذاکرات کی پیشکش درحقیقت دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایک بھونڈی کوشش ہوتی ہے۔ اسکے برعکس پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے اور یواین قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہتا ہے۔ اصل معاملہ تو بھارت کا ہے جس نے دوطرفہ مذاکرات کا کوئی ایک مرحلہ بھی آج تک کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اس صورتحال نے بہرحال اقوام متحدہ نے ہی پاکستان بھارت تنازعات کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہے جو مسئلہ کشمیر پر یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں پر انکی روح کے مطابق عملدرآمد سے ہی ممکن ہے۔ یہی اقوام متحدہ کے پاس علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی کنجی ہے جسے اقوام متحدہ نے ہی بروئے کار لانا ہے اس لئے اسے مقبوضہ کشمیر میں اور کنٹرول لائن پر بھارت کی پیدا کردہ کشیدگی کی صورتحال کا ادراک ہونا چاہیے۔ بھارتی عزائم کی بنیاد پر پاکستان کو اپنے تحفظ و دفاع کا بہرصورت حق حاصل ہے۔