پاکستان کے سنگین معاشی بحران نے شہریوں کی اکثریت کو اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ مہنگائی نے انکے گھریلو بجٹ اپ سیٹ کر دیئے ہیں۔ سنگدل قومی لٹیرے قومی دولت لوٹ کر ملک سے باہر لے گئے ہیں اور خمیازہ غریب مظلوم عوام بھگت رہے ہیں۔ انکی زندگی تلخ تر ہوتی جا رہی ہے۔ بقول شاعر …؎
اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہو گئی ہے
اقتدار میں آنیوالی ہر جماعت انتخابی مہم کے دوران عوام سے ٹیکس نیٹ بڑھانے کا پختہ وعدہ کرتی ہے مگر اقتدار میں آنے کے بعد یہ وعدہ پورا کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ سٹیزن کونسل آف پاکستان کے محب وطن صدر رانا امیر احمد خان ایڈووکیٹ نے پاکستان کو درپیش معاشی بحران کے سلسلے میں معیاری اور فکر انگیز فکری نشست کا اہتمام کیا۔ لاہور ٹیکس بار کے سابق صدر جناب حبیب الرحمن زبیری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایف بی آر میں 42 لاکھ شہری رجسٹرڈ ہیں۔ جن میں سے صرف چار لاکھ ٹیکس دیتے ہیں۔ سنجیدگی کے ساتھ کبھی سروے نہیں کرایا گیا۔ ٹیکس دفاتر کا ماحول دوستانہ اور آبرومندانہ نہیںہے۔ آفیسرآقا بنے بیٹھے ہیں۔ ان کو خادم بنانے کی ضرور ہے۔ مارکیٹوں میں اگر خفیہ ایجنسیاں مثبت کردار ادا کریں تو کسٹم اور ٹیکس کو مدنی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ سرکاری فارم اردو میںشائع کئے جائیں۔انہیں سادہ اور عام فہم بنایا جائے تو ٹیکس گزار حکومت کو وکیل کے بغیر انکم ٹیکس جمع کرانے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔
سٹیٹ بنک کے سابق چیف منیجر جناب چودھری منیر احمد نے اپنے تفصیلی لیکچر میں بتایا کہ اسلام کے اقتصادی نظام پر عمل کرکے موجودہ معاشی بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی اسلام کے زکوٰۃ کے نظام پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے اور ریاست ہر امیر شخص سے زکوٰۃ لے کر قومی خزانے میں جمع کرے تو بجٹ کا خسارہ ختم کیا جا سکتا ہے۔ دیانتدار تاجروں کی عزت افزائی کی جائے۔ ان کو ریاست کے وی آئی پی شہری قرار دیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ قائداعظم نے بھی سٹیٹ بنک کا افتتاح کرتے ہوئے اسلام کے معاشی ماڈل پر زور دیا تھا کیونکہ مغربی سرمایہ دارانہ معاشی نظام عام آدمی کو عزت سے جینے کا حق نہیں دے سکتا۔ قائداعظم کا اکنامک ویژن درست ثابت ہوا ہے لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ زکوٰۃ کے نظام کو ریاست کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ قرار دیا جائے اور غریب عوام کو ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کے بوجھ سے نجات دلائی جائے۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ممتاز انور نے کہا کہ منصوبہ بندی کی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے۔معاشی ترقی کی منصوبہ بندی کرتے وقت سوشل سیکٹر کو زیادہ اہمیت دی جائے۔ ٹیکس جمع کرنیوالے اداروں کو مہارت اور اہلیت کو بڑھایا جائے۔ حکومت جتنی بہتر منصوبہ بندی کرے گی‘ اسی قدر اسے بہتر نتائج ملیں گے۔ لاہور سکول آف اکنامکس کے پروفیسر ڈاکٹر سید اظہر حسن ندیم نے ٹیکس نظام کی شفافیت اور اسے فرینڈلی بنانے پر زور دیا۔
برادرم ضیاشاہد کا شمار بزرگ صحافیوںمیںہوتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران انہوں نے پاکستان کی سیاسی‘ سماجی‘ ثقافتی‘ صحافتی اور ادبی تاریخ کے بارے میں ایک درجن سے زیادہ کتب تحریر کی ہیں۔ انکی تازہ تصنیف ’’میرا دوست نوازشریف‘‘ نے سیاسی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ انہوں نے بڑی مہارت کے ساتھ قائداعظم سے لیکر میاں نوازشریف تک کی سیاسی تاریخ کو اپنی مختلف کتب میں نوجوان نسل کو منتقل کر دیا ہے جسے ’’دبستان ضیاشاہد‘‘ کے طورپر یاد کیا جائیگا۔ ضیاشاہد کی نئی کتاب تلخ و شیریں واقعات اور انکشافات پر مبنی ہے۔ حق گوئی اور بے باکی ضیاشاہد کی امتیازی خوبی ہے۔ انکے دوست میاں نوازشریف جب اس کتاب کا مطالعہ کرینگے تو ان کو غالب کا یہ شعر ضرور یاد آئے گا…؎
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
ضیاشاہد نے 1990ء میںمیاں نوازشریف کو مشورہ دیا کہ اللہ نے ان کو ریاست کے سب سے بڑے منصب وزارت عظمیٰ سے نوازا ہے لہٰذا وہ اعلان کر دیںکہ وہ اقتدار کے دوران کاروبار نہیں کرینگے۔ یہی مشورہ جنرل حمید گل نے بھی شریف خاندان کو دیا تھا مگرافسوس انہوں نے اپنے دوستوں کے صائب مشورے کو نظرانداز کر دیا۔ انسان قبر میں خالی ہاتھ ہی جاتا ہے۔ اگر شریف برادران سیاست اور تجارت کو مکس نہ کرتے تو آج گردش حالات کا شکار نہ ہوتے۔ ضیاشاہد نے کتاب میں تحریر کیا ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے اینٹی بھٹو ووٹ کو متحد کرنے کیلئے کراچی میں الطاف حسین اور پنجاب میں میاں نوازشریف کو لانچ اور پروموٹ کیا۔
پنجاب کے گورنر جنرل جیلانی نے اخبارات کے مالکان اورسینئر صحافیوں کی ملاقات میاں نوازشریف سے کرائی اور احکامات جاری کئے کہ میاں صاحب کو لیڈر بنانے کیلئے مکمل تعاون کیا جائے۔ پاکستانی سیاست کی ستم ظریفی اور جرنیلوں کی اہلیت ملاحظہ کیجئے کہ جن غیرمعروف افراد کو لیڈر بنایا گیا‘ وہ پارلیمانی قوت حاصل کرنے کے بعد پاک فوج کیخلاف کھڑے ہو گئے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ سلامتی کا قومی ادارہ مکمل طورپر سیاست سے الگ تھلگ رہے۔ ضیاشاہد لکھتے ہیں کہ سیاسی لیڈر جمہوریت کے لبادے میں اقتدار میں آتے ہیں اور اختیارات حاصل کرنے کے بعد جمہوری اصولوں کو ترک کرکے بادشاہ بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکی۔ کتاب میں خوشامدی سیاسی کلچر کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ ضیاشاہد نے اپنی یادگار کتاب ’’میرا دوست نوازشریف‘‘ میں اشرافیائی جمہوریت کے خدوخال بیان کئے ہیں کہ کس طرح جمہوری لیڈر دعوے انصاف کے کرتے ہیں مگر نظام استحصال کا چلاتے ہیں۔
ضیاشاہد نے میاں نوازشریف کی مکمل سیاسی سوانح عمری قلمبند کی ہے جو وزیرخزانہ پنجاب سے وزیراعلیٰ پنجاب اور وزارت عظمیٰ سے اڈیالہ جیل تک کی مکمل اندرونی کہانی ہے۔ الیکشن کے مہنگے امیدوار یا یابابو وارث بدمعاش کاذکر‘ عوام سے دوری‘ نوازشریف بمقابلہ بینظیر‘ چودھریوں کی بغاوت‘ چھانگا مانگا آپریشن‘ کچھ ذکر عمران خان کا‘ فاروق لغاری کی زمینوں پر چڑھائی‘ چاپلوس معاشرہ‘ مقصود بٹ اور ناجائز قبضے‘ نوازشریف کا کھانا پینا‘ کہانی پندرہویں ترمیم کی‘ اکبر بگٹی کا اعتراف‘ انصاف کے دوہرے معیار‘ بینظیر کے جلوس پر حملہ‘ بھارت سے دوستی اور فوج سے دوری‘ کتاب کے دلچسپ اور سبق آموز ابواب ہیں۔ کتاب کے ابتدائیہ میں تحریر ہے۔ ’’محمد نوازشریف میرا دوست‘ میرا بھائی کم از کم میں یہی سمجھتا تھا یہ عقدہ بہت دیر بعد جا کر مجھ پر کھلا کہ بزنس مین کی دوستیاں بزنس کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ بزنس کے انداز بھی بدلتے ہیں۔ سودا پٹ جائے تو بزنس مین مڑ کر بھی اس شخص کی طرف نہیں دیکھتا جس سے اس نے کبھی وعدے وعید کئے ہوتے ہیں جس پر وہ کبھی صدقے واری ہوا ہوتا ہے۔‘‘ یادش بخیر جب میاں نوازشریف جنرل پرویز مشرف کی قید میں تھے تو بابائے جمہورت نصراللہ خان نے شاید اے آر ڈی کے نام سے اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد تشکیل دیا تھا جس میں مسلم لیگ (ن) بھی شامل تھی۔
جب شریف خاندان اچانک ڈیل کرکے سعودی عرب چلا گیا تو نصراللہ خان نے کہا’’میں نے زندگی میں پہلی بار تاجرسیاستدان پر بھروسہ کیا۔‘‘ ضیاشاہد کی کتاب کی تقریب رونمائی میں وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید‘ لیاقت بلوچ‘ منظور وٹو‘ سہیل وڑائچ‘ فضل حسین اعوان‘ ڈاکٹر اجمل نیازی‘ افتخار احمد‘ ثوبیہ نورین خان‘ ایاز خان‘ منیر بلوچ اور فاروق چوہان نے اظہار خیال کیا۔ خوبصورت اور دلکش انداز میں شائع کی گئی یہ کتاب ریفرنس بک کی حیثیت رکھتی ہے۔انتہائی دکھ کا مقام ہے کہ ستر برس گزر جانے کے بعد بھی جوکتب تحریر کی جارہی ہیں‘ وہ سیاست اور جمہوریت کا نوحہ ہوتی ہیں۔ الیکٹرانکس اور پرنٹ میڈیا میں بھی حالات حاضرہ کا ماتم ہی ہوتا ہے۔ تاریخ کے عینی شاہد بزرگ صحافیوں کا قومی فرض ہے کہ وہ پاکستان کے سیاسی‘ سماجی اور معاشرتی نظام کے بارے میں کتب لکھ کر حالات کا ماتم کرنے کی بجائے قومی مسائل کا حل تجویز کریں تاکہ نوجوان نسل ایک ہی دائرے کے سفر سے باہر نکل کر نئے سفر کا آغاز کر سکیں اور خوشحالی و استحکام کی منزل حاصل ہو سکے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024