’’ریسرچ آج کے دور کابہت بڑا فراڈ‘‘ یہ عنوان ہے میرے اس کالم کا جو 20 نومبر 2000ء میں فکرو تدبر کے طور پر نوائے وقت میں چھپا تھا۔ تب میں پنجاب یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا اور امریکہ کی ایک درجن یونیورسٹیوں اور وائس آف امریکہ سمیت مختلف امریکی ٹیلی ویژن چینلوں اور اخبارات میں بطور فل برائٹ سکالر اپنے ٹھوس خیالات کا اظہار کر کے واپس پاکستان آئے مجھے دس سال ہو چکے تھے۔ یہ تمہید مجھے اس لئے باندھنی پڑی کہ آج کل پھر کچھ سوڈو جرنلسٹ خود مذمتی انداز میں ایک ایرانی نژاد پروفیسر کی اس ریسرچ کی باتیں کر رہے ہیں جو روزنامہ ٹیلی گراف نے دو اکتوبر 2018ء کو شائع کی ہے۔ پروفیسر حسین عسکری جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں انٹر نیشنل بزنس اور انٹر نیشنل افیئرز کے پروفیسر ہیں اور انکی یہ ریسرچ ’’اسلامی ممالک میں اسلام کی حیثیت کہہ لیں یا اسلام کے ساتھ سلوک ‘‘کی بات کر لیں۔
اگرچہ یہ کوئی نیا موضوع نہیں مگر اہل مغرب اسے اسلام کے خلاف بالمعموم اور مسلمانوں کیخلاف بالخصوص استعمال کرنے کیلئے ایسی ریسرچ کو خوب اچھالتے ہیں اور اپنے اندر کے خوف کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض ایسے فرضی قصے کہانیاں اپنی ’’سپورٹ‘‘ میں پیش کرتے ہیں جن کے سچ ہونے کے شواہد پیش کرنے اور طلب کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔ اسے من و عن مان لیا جاتا ہے۔
اس ریسرچ میں پروفیسر نے 208 ممالک اور علاقوں میں سروے کر کے نتائج مرتب کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اقتصادی کامیابیوں اور سماجی اقدار میں آئر لینڈ، ڈنمارک، لکسمبرگ اور نیوزی لینڈ سرفہرست ہیں۔ اوپر کے دس ممالک میں برطانیہ کا بھی نمبر ہے۔ مسلمان ممالک میں سب سے اوپر ملائیشیا ہے مگر یہ بھی 33ویں نمبر پر ہے اور اوپر کے پچاس ممالک میں ملائیشیا کے بعد دوسرے نمبر پر کویت ہے جس نے 48ویں نمبر میں اپنی پوزیشن بنائی ہے۔
ان اعداد و شمار کے علاوہ پروفیسر حسین عسکری نے مسلمانوں کو بے عزت کرنے اور ان کو ذلیل کرنے کیلئے جو از خود نتائج اخذ کئے ہیں انکے مطابق وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ جتنے بھی ممالک خود کو اسلام سے وابستہ کرتے ہیں وہاں ناانصافی، کرپشن، پسماندگی اتنی زیادہ ہے کہ فی الحقیقت وہ کسی طور اسلامی نہیں یا اسلامی کہلانے کے مستحق نہیں اور پھر انہوں نے اسلامی معیشت کے حوالے سے اسلام کے اصولوں کے عملاً نفاذ پر آئرلینڈ، ڈنمارک، لکسمبرگ، سویڈن، برطانیہ، نیوزی لینڈ، سنگاپور، فن لینڈ، ناروے اور بلجیئم کی تعریفیں کی ہیں۔
ٹیلیگراف نے یہ خبر ’’گلوبل اکانومی جرنل‘‘ سے لی ہے جہاں یہ آرٹیکل شائع ہوا ہے اس آرٹیکل میں بحرین کو 64 اور سعودی عرب کو 131 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ اس تاثر کو گہرا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام کے سنہری اصولوں کو مسلمان ممالک کی نسبت غیر مسلم ممالک نے اپنایا ہوا ہے۔ سچ بولنا، کاروبار میں دیانتداری، دوسروں کے حقوق کا احترام کرنا اور مغرب کے باقی اشارے جن کو بنیاد بنا کر یہ نتائج اخذ کئے جاتے ہیں، گمراہی پھیلا رہے ہیں اور بعض مسلمان سکالر انہی کی اسیری میں یہ گمراہی پھیلانے کا ہتھیار بن جاتے ہیں۔
ایک مسلمان سکالر سے یہ توقع نہیں کہ وہ غیر مسلموں کی پچ پر اسلام اور مسلمانوں کو پرکھے انکی ترقی اور انسانیت کے معیار کو مسلمانوں پر نافذ کر کے اس طرح کا نتیجہ اخذ کرے۔ یہ بات قرین قیاس نہیں کہ اس ریسرچ میں فزیکل چیکنگ یا ڈیٹا جمع کرنے کا کام 208 ممالک میں جا کر کیا گیا ہو اگر ایسا نہیں ہے جو یقیناً نہیں ہے تو پھر انٹرنیٹ اور اسی طرح کے مآخذ استعمال کئے گئے ہونگے تو پسماندہ مسلم ممالک بقول پروفیسر صاحب اور انکے ریسرچ کے معیار کے ان اعدادوشمار میں بھی پسماندہ نہیں بلکہ اول تو انکے پاس وہ ڈیٹا نہیں جو مغربی ترقی کے معیارات متعین کرکے ان کی جانچ پرکھ کا حوالہ بنا لے اور اگر ہے تو وہ بہت پرانا ہوگا اور وہ بھی ضروری نہیں درست ہو۔ چنانچہ غلط اعدادوشمار اور مآخذ پر مرتب ہونیوالے نتائج درست نہیں ہو سکتے۔
اللہ نے اپنی آخری کتاب میں انسانوں اور جنوں کی تخلیق کا جو سبب بتایا ہے وہ تو یہ ہے ’’کہ میں نے انسانوں اور جنوں کو اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا۔‘‘ اگر اس بنیادی اصول اور حکم سے ہی مغرب میں رہنے والے انحراف کریں اور صرف مسلمان اسکی کبھی یا جزوی پابندی کریں تو اصل اصول تو مسلمان ممالک میں ہی نافذ ہوگا۔ دوسرا بڑا حکم خاندان کی تشکیل اور خاندان کی آپس کی ذمہ داریوں‘ والدین کے اولاد کیلئے حقوق و فرائض اور اولاد کے والدین کیلئے۔ عزیزواقارب‘ مسافروں‘ بیماریوں‘ کمزوروں‘ ہمسایوں اور انسانوں کے حوالے سے حقوق و فرائض کا جائزہ لیتے ہوئے کاش پروفیسرصاحب نے اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھا ہوتا کہ انسانوں سے جعلی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر ملنے والے مغربی معاشرے میں تو والدین کے حقوق ادا نہیں کئے جارہے۔
اولڈ ایج ہومز کا رواج بھی انہی معاشروں میں ہے۔ اپنے بوڑھے والدین کو گھر سے نکال کر اولڈ ایج ہومز پہنچانے والے کسی دوسرے بوڑھے کو سڑک پار کرنے کا موقع دینے کیلئے اپنی گاڑی روک لیں تو اس میں جو انسانیت کی عظمت تلاش کی جاتی ہے‘ وہ بہت ہی سطحی ہے۔ نوجوانوں کو حوصلہ دینے اور ان کو مستقبل کی امید قرار دینے والے اس معاشرے میں نوجوانوں کا تعلیم مکمل کرنے کے بعد استحصال یا تو سوشل ورک یا انٹرن شپ کے نام پر جس طرح کیا جاتا ہے اور بغیر تنخواہ کے ان سے انکی مجبوری کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے وہ اسلامی ممالک میں نظر نہیں آئیگا۔ اپنی جوان اولاد کے سامنے بے بس ثابت ہو جانے والے جب باہر اپنی فرسٹریشن چھپانے کیلئے دوسرے نوجوانوںکو وہ کچھ دینے کا اعلان کرتے جن سے انہوں نے اپنی سگی اولاد کو محروم کر رکھا ہے تو ہمارے دانشور اس سے متاثر ہو جاتے ہیں جو مخلوق اپنے خالق اور ایسے خالق سے وفا نہ کرے جس نے ان کو کچھ نہیں سے بنایا۔ انہیں کھلایا پلایا یا بڑا کیا۔ عقل دی اور آزادی سے رہنے کا موقع دیا جس کے ہاتھ میں انکی زندگی‘ بیماری اور موت ہے تو انکے ترقی کے سارے معیارات کو اسلام یا مسلمان اہمیت نہیں دیتے۔
مسلمانوں کی اپنی پچ ہے اس پچ پر اگر سچائی‘ دیانتداری کے دو چار شارٹ کوئی غیر مسلم بھی لگا لے اور ان خوبیوں کو اپنانے کے بعد بھی اسلام کے دائرہ میں نہ آئے تو ایسی ترقی نہ اللہ کے نزدیک اہم ہے نہ مسلمانوں کے نزدیک ہونا چاہئے۔
یہ مانا کہ مسلم ممالک میں حکومتوں کی سطح پر اسلام کے نفاذ میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ ہوا مگر جہاں لیڈرشپ میں دیانتداری اور ایمانداری آئی اور جہاں لیڈرشپ نے اپنی اس خواہش کا برملا اظہار کر دیا کہ ’’ میری زندگی کی واحد تمنا ہے کہ مسلمانوں کو آزادانہ سربلند دیکھوں‘ میں چاہتا ہوں جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لیکر مروں کہ میراخداگواہی دے کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی‘ تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کیا۔ میراخدا یہ کہے جناح بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں علم اسلام سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے۔‘‘
مسلمانوں کے متعلق اکا دکا منفی مثالیں پیش کرنے کی بجائے کاش ہمارے سکالر یہ بھی دیکھیں کہ قائداعظم ایسا لیڈر جو بغیر ملک کے نظریہ کی سچائی اور حقانیت پر کم فہم اپنوں‘شاطرانہ‘ مکار دشمنوں سے تن تنہا لڑ کر اس خطہ ارض پر مسلمانوں کو ایک ایسا آزاد ملک دے گیا جو اپنے حکمرانوں کی بداعمالیوں اور نالائقیوں کے باوجود دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے۔ عارضی اتار چڑھائو اور کم ظرف اور حادثاتی حکمرانوں کی وجہ سے نہ اسلام کو کچھ ہوا ہے نہ مسلمانوں کوہوگا۔
اغیار کے اعدادوشمار اور اشاروں پر کی جانیوالی ریسرچ جھوٹ‘ فریب اور دھوکا ہے اور مسلمانوں کومایوس کرنے کی مہم کاحصہ ہے۔ ذرا 131 ویں نمبر پر آنے یا لانے والے سعودی عرب میں معاشی خوشحالی کا جائزہ لیں۔ قانون کی عمل داری اور زیرو کرائمز کے اسباب تو دیکھیں صرف اسلامی قوانین کا نفاذ آپ کی ریسرچ اسے 208 نمبر پر لے جائے‘ لوگ نہیں مانیں گے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024