ہماری لخت جگر یونیورسٹی آف ورجینیاکے قریب ایک اپارٹمنٹ میں رہتی تھیں۔ 2011ء چھٹیوں میں نیویارک گھر آئی ہوئی تھیں کہ کار کے حادثہ میں اللہ کو پیاری ہو گئیں اور ہمیں خزاں کے سوکھے پتوں کی مانند بے آسرا چھوڑ گئیں۔ وہ دن ہماری کربلا تھی جس روز ہم ورجینیا کے اپارٹمنٹ سے سامان اٹھانے گئے تھے۔ سب کچھ ویسے ہی رکھا تھا مومنہ جیسا چھوڑ کر گئی تھیں۔ میزوں پر ہر طرف کتابیں بکھری ہوئی تھیں، کرسی پر نماز کا دوپٹہ اور قالین پر جائے نماز رکھی ہوئی تھی۔ ماں باپ اور چھوٹے بھائی نے ہر چیز اپنے ہاتھوں سے سمیٹی۔ لٹے پٹے قافلے کی طرح سامان ٹرک میں رکھا۔ اپارٹمنٹ صاف کرنے لگی تو دیکھا بیٹا ویکیم کلینر استعمال کرنے کی بجائے اپنے قالین سے اپنے ہاتھوں سے اپنی بہن کے بال چن رہا تھا۔ ضبط کی انتہا ٹوٹ گئی۔ اس قیامت کے بعد اس شہر کا رخ نہ کرنے کی قسم کھا لی۔ لیکن یونیورسٹی والوں نے مومنہ کی یاد میں دعا رکھی۔ ہمیں پھر جانا پڑا۔ یونیورسٹی کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر سر گھٹنوں میں رکھے پھوٹ پھوٹ کر رو تی رہی۔ اس روز دل نے کہا کہ میری بچی ان پڑھ رہتی مگر میرے پاس تو رہتی۔ اس کی ڈگریاں اور ایوارڈ راتوں کو ڈستے ہیں۔ 2012ء میں امریکہ کی نامور ورجینیا یونیورسٹی آف لا سکول میں مومنہ چیمہ فائونڈیشن کی بنیاد رکھی گئی۔ قابل اور ذہین طالبہ مومنہ چیمہ کی یاد میں اس اعزاز کے بعد یہ سلسلہ ہارورڈ یونیورسٹی سے ہوتا ہوا پاکستان جا پہنچا اور پاکستان میں مستحق طالبات کے لئے سکالرشپ پروگرام کا آغاز پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے کیا گیا۔ علم کی یہ شمع وسطی پنجاب سے جنوبی پنجاب، خیبر پختون خواہ، آزاد کشمیر اور بلوچستان تک جا پہنچا۔ ان چھ برسوں میں سینکڑوں طالبات قانون، میڈیکل، فارمیسی اور دیگر مضامین میں پروفیشنل ڈگریاں حاصل کر کے اپنے پیروں پر کھڑی ہو چکی ہیں۔ سرکاری یونیورسٹی کی قریبا چالیس ہزار روپے سالانہ فیس ہے جبکہ مومنہ چیمہ فائونڈیشن نصف سکالر شپ کی صورت میں مدد کرتی ہے جبکہ انتہائی ضرورت مند کیس میں پوری فیس بھی ادا کی جاتی ہے۔
2011ء میں مومنہ کی اس دنیا سے رخصتی کے بعد امریکہ کی نامور یونیورسٹی (یونیورسٹی آف ورجینیا سکول آف لاء)کے ڈین کی جانب سے خوشخبری کا لیٹر موصول ہوا تو غم ا ور خوشی سے آنسو چھلک پڑے۔ خوشی اس بات کی کہ آج امریکہ کی نامور یونیورسٹی میں (اسلامی قانون) کی تین سالہ ڈگری حاصل کرنے والے سٹوڈنٹ کو مومنہ چیمہ فاؤنڈیشن کے نام کا سکالر شپ پروگرام کا اجرا کیا گیا ہے اور غم کے آنسو اس لئے بہہ رہے تھے کہ بیٹی کا مشن تو نظر آتا ہے مگر مومنہ کی صورت نظر نہیں آتی۔ مومنہ نہ صرف پاکستان بلکہ تمام امت مسلمہ کے لئے ایک رول ماڈل ہے جس نے کم عمری میں امریکہ میں اسلامی فلاسفی کو اپنے علم اور عمل سے اس طور متعارف کرایا کہ امریکی پروفیسر اور نوجوان نسل مومنہ کو مسلم رول ماڈل کہنے پر مجبور ہو گئے۔
امریکہ میں لابنگ کا بہترین طریقہ تعلیمی سکالر شپ کا انعقاد ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اور رحمت سے مومنہ چیمہ کے والدین نے بغیر کسی سرکاری امداد یا فنڈ ریزنگ تقریبات کے امریکہ کی نامور یورسٹیوں میں سکالر شپ اور ٹریول گرانٹ پروگرام شروع کر رکھے ہیں۔ 2012ء میں مومنہ چیمہ فاؤنڈیشن کے تحت پاکستان میں بھی وظائف جاری کرنے کا اعلان کیا گیا تو محترم مجید نظامی مرحوم نے اپنے دفتر میں بلا کر اپنی قیمتی رائے دیتے ہوئے کہاکہ پاکستان کی سرکاری درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرنے والی مستحق طالبات کو اعلیٰ ڈگری دلانے کی طرف بھی توجہ دی جائے۔ہم نے اس مشن کا آغاز پنجاب یونیورسٹی آف لاء سکول سے کر دیا۔مومنہ کے آبائی گاؤں کا سرکاری گرلز ہائی سکول بھی گود لے لیا۔ مومنہ چیمہ امریکہ تا پاکستان نئی نسل کے لئے ایک مشعل راہ ہیں۔ مومنہ چیمہ لاہور میں پیدا ہوئیں۔دو ماہ کی عمر میں امریکہ آئیں۔پرائمری کی تعلیم امریکہ کے ایک اسلامی سکول سے حاصل کی۔ مڈل سکول ریاض سعودی عرب میں مکمل کیا جبکہ دو سال لاہور میں ایک پرائیویٹ سکول میں زیر تعلیم رہیں۔ہائی سکول کے لئے فیملی کے ساتھ امریکہ واپس شفٹ ہو گئیں۔مومنہ کا نام امریکی ہائی سکول کے ٹاپ ٹین اور Who is Who سٹوڈنٹس میں شامل ہے۔ہائی سکول اور کالج کی جانب سے بحثیت Extemporaneous Speaker (فی البدیہہ مقررہ) امریکہ میں valedictorian پوزیشن ہولڈر حاصل ہیں۔ امریکہ کی نامور ڈیوک یونیورسٹی سے Critical English literature انگلش لٹریچر میں بی اے کیا۔ ہاروڈ یونیورسٹی سے Near Eastern Languages and Civilizations اسلام، ثقافت، تاریخ، فلسفہ، تصوف، اردو اور فارسی کے مضامین میں ایم اے کیا۔ یونیورسٹی آف ورجینیا لاء سکول میں پہلا سال مکمل کرنے کے بعد گرمیوں کی چھٹیوں میں نیویارک کی ایک ڈسٹر کٹ کورٹ کے جج کے ساتھ انٹرن شپ کر تے ہوئے چند روز گزرے تھے کہ 25 سالہ خوبصورت، خوب سیرت اور بے مثال خوبیوں اور کمالات کی مالکہ مومنہ چیمہ 10 جون 2011ء میں کار کے ایک حادثہ کا شکار ہو گئیں۔ مومنہ بیٹی اسلامی اور مشرقی اقدار کا بے مثال نمونہ تھیں۔ ایک متوازن سوچ اور کردار کی حامل تھیں۔امریکی پروفیسر اورسٹوڈنٹس مومنہ کورول ماڈل سمجھتے ہیں۔ فلسفہ اور اسلامی علوم میں یہ مقام تھا کہ بیس سال کی عمر میں امریکہ کی نامور (ڈیوک یونیورسٹی) کی ایک اسلامک کانفرنس میں بحثیت گیسٹ سپیکر مدعو تھیں۔ مومنہ نے اقبال کے حوالے سے فلسفہ بدن اور روح پر ٹاک دی۔
مومنہ امریکہ میں مسلم کمیونٹی کا ایک بیش بہا سرمایہ تھیں۔ مومنہ کی قابلیت اور صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ورجینیا لاء یونیورسٹی نے مومنہ کے نام کو ہمیشہ کے لئے زندہ رکھنے کے لئے سکالر شپ کا اجرا کیا۔ ہاروڈ یونیورسٹی کی جانب سے بھی’’مومنہ چیمہ ٹریول گرانٹ پروگرام‘‘ کے اعزاز سے نوازا گیا جس کے تحت ہاروڈ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس ریسرچ پروگرامز کے لئے پاکستان جاتے ہیں۔ امریکہ کی نامور یونیورسٹیوں سے یہ اعزازات پانے والی مومنہ چیمہ امریکہ میں پہلی مسلمان پاکستانی طالبہ ہیں۔ مومنہ کی زندگی کا مقصد وکالت کی ڈگری حاصل کرکے امریکہ کی جیلوں میں قید بے قصور مسلمان قیدیوں کو رہائی دلانا تھا مگر زندگی نے مہلت نہ دی۔ مومنہ کی یاد میں’’علم و عرفان پبلشر‘‘ نے بعنوان ’’مومنہ‘‘ کتاب شائع کی ہے۔ اس کتاب کے بارے میں صرف اتنا کہوں گی کہ
در سخن مخفی منم چوں بوئے گل در برگِ گل
ہر کہ دیدن میل دارد در سخن بیند مرا
(میں اپنی تحریروں میں اس طرح پوشیدہ ہوں جس طرح پھول کی پتوں میں خوشبو پوشیدہ ہوتی ہے چنانچہ جو مجھے دیکھنا چاہے وہ مجھے میری تحریروں میں دیکھ لے۔۔۔ یونیورسٹی آف ورجینیا لاء سکول کی جانب سے مئی 2013 میں ایک کارڈ اور پھول موصول ہوئے۔ یونیورسٹی کے ڈِین نے لکھا کہ تین سال مکمل کرنے کے بعد سٹوڈنٹس کو ڈگریاں تقسیم کی گئیں اور گریجویشن کے اہم موقع پر قابل فخر طالبہ مومنہ چیمہ کو خصوصی طور پر یاد کیا گیا جو آج ان سٹوڈنٹس کے بیچ موجود نہ تھی مگر سٹوڈنٹس اور اساتذہ کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ میری بیٹی نے اس روز لاء کی ڈگری لے کر گھر آنا تھا اور کھنک دار لہجے میں کہنا تھا ’’امی! آج میں نے قانون کی ڈگری حاصل کرکے آپ کا خواب پورا کر دیا ہے۔‘‘ مومنہ کی ایک امریکن سہیلی کا خط بھی موصول ہوا جس میں اس نے لکھا کہ ’’گریجویشن کی تقریب کے موقع پر مومنہ بے حد یاد آئی۔ ان دو سالوں کے دوران میری زندگی میں بہت تبدیلی آ چکی ہے۔ میری شادی ہو چکی ہے اور میں ایک بیٹی کی ماں بھی بن چکی ہوں۔ آج میں مومنہ کے والدین کا کرب محسوس کر سکتی ہوں۔ میں اپنی بیٹی کے بغیر ایک پِل رہنے کا تصور نہیں کر سکتی۔ اپنی بیٹی کو مومنہ کی طرح بنانا چاہتی ہوں۔ مومنہ علم کا دیا روشن کر گئی ہیں اور علم کا یہ دیا سدا روشن رہے گا۔۔۔۔‘‘
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024