ٹریفک حادثات میں قیمتی جانوں کازیاں
گزشتہ روز کشمور کے نواح میں ٹرین کی زد میں آکر چنگچی رکشہ میں سوار ایک ہی خاندان کے 10 افراد جاں بحق ہوگئے۔ رکشہ ڈرائیورکی معمولی سی لاپروائی اور جلد بازی نے نہ صرف پورے گھر کو اجاڑ دیابلکہ خودبھی لقمہ اجل بن گیا۔ اس طرح گزشتہ ہفتے ہونے والے ہولناک حادثات میانوالی کے قریب یونیورسٹی کی سات طالبات‘ ڈیرہ غازی خان کے قریب بس اور مسافر کوچ کے درمیان ٹکر سے ہولناک تصادم میں 20 افراد موقع پردم توڑ گئے جبکہ 40 ا فراد زخمی ہوگئے۔ اس طرح کراچی‘ لاہور جیسے بڑے شہروں میں 3 سے چار حادثات ہونامعمول ہے اور حکومت ان کو معمولی گردانتے ہوئے سنجیدگی سے نہیں لیتی اور قیمتی جانوں کازیاں حادثات کی صورت میں ہورہا ہے۔ شہروں میں ہونے والے ٹریفک حادثات کی بڑی تعداد موٹرسائیکل سواروں کی ہے۔ غیر معمولی حادثات میں صدر‘ وزیراعظم‘ وزراء اعلیٰ کے مذمتی بیانات اور حادثات کی انکوائریوں کے احکامات‘ رپورٹس پیش کرنے کی ہدایات تک محدود ہیں۔ اگر واقعی ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرکے سنجیدہ اقدامات اٹھائے جاتے تو حادثات کی روک تھام شاید ممکن نہ ہو لیکن حادثات کم کیئے جاسکتے ہیں۔ اگر افسران و عملہ اپنے فرائض سے انصاف کرتے ہوئے سخت اقدامات اٹھاتے ہیں تو عوام بلبلا اٹھتے ہیں۔ سیاستدان کو سیاست چمکانے کا موقع مل جاتاہے اور پھر حسب معمول زندگی رواں دواں ہوجاتی ہے۔ یہ حادثات رونماہوتے ہیں‘ قیمتی جانوں کازیاں جاری رہتا ہے‘ ٹریفک حادثات سے متاثرہ خاندان کے ایک عزیز نے سوال کیا کہ ہمارے ملک میں چلنے والی بین الاقوامی کوچ سروس کے کتنے حادثات ریکارڈ ہوئے ہیں تواس بات کا جواب نہ تھا۔ اگر دوتین حادثات ہوئے بھی ہیں تومخالف سمت سے آنے والی گاڑی ڈرائیور کی غلطی سے‘ تو اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ ٹریفک قوانین پر عملدرآمد‘ گاڑیوں کی فٹنس و مرمت اور سب سے بڑھ کر تربیت یافتہ ڈرائیوراسٹاف ہے‘ اسکے علاوہ ملک کی مین شاہراہوں پر ٹریفک کنٹرول اورقوانین پر عملدرآمد کروانے کے سا تھ ساتھ موٹروے پولیس کی موجودگی ہے جس کی وجہ سے ٹریفک حادثات میں کمی ہوتی ہے‘ اس کے باوجود رونماہونے والے حادثات ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔
اس سے قبل راقم الحروف متعدد بار توجہ دلا چکا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی تقلید کرتے ہوئے ٹریفک حادثات پر قابو پایا جاسکتا ہے‘ جس کیلئے عوام میں آگاہی اور ڈرائیورز کی تربیت ناگزیر ہے۔ ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کرنے کے لئے کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا جائے‘ سخت پالیسی پر عمل پیرا ہو کر اقدامات کرنے ہوںگے۔ ٹریفک قوانین پرعملدرآمد کرنے سے ٹریفک کی روانی بہتر ٹریفک مسائل حل اور حادثات میں کمی آئے گی اور یہ سب کچھ کرنے کے لئے حکومت کو سنجیدہ اقدامات اٹھانے‘ میرٹ پر فیصلے کرنا ہوںگے۔ حال ہی میں کراچی میں ڈی آئی جی ٹریفک نے شہر قائد میںٹریفک قوانین پرعملدرآمد کرانے کے لئے سخت اقدامات کا حکم دیا ہے اور 20 اکتوبر سے ہیلمٹ نہ پہننے‘ ڈرائیونگ لائسنس نہ رکھنے اور یوٹرن پربھاری بھر کم جرمانے کرنے کاعندیہ دیابلکہ یہ بھی حکم دیا کہ جرمانہ نہیں سیدھا جیل بھیجا جائے۔ تاہم لائسنس برانچوں پر عوام کے رش کے پیش نظر لائسنس منوانے کی حتمی تاریخ میں دو ماہ کی توسیع کردی گئی۔ امید ہے کہ مجوزہ تاریخ کے بعد ٹریفک قوانین پرعملدرآمد کی مہم جاری کی جائے گی۔ شہر میں بڑھتی ہوئی گاڑیوں کی تعداد کے باعث بتدریج ٹریفک مسائل اور حادثات میںاضافہ ہوتا جارہا ہے‘ جس کے لئے بلاشبہ ہمیں سخت اقدامات ناگزیر ہیں۔ اس مقصد کے لئے نڈر‘ بااختیار ‘بااصول اور محنتی افسران کی ضرورت ہے‘ کسی بھی ٹیم کی کامیابی کا سہراصرف کپتان کے سر نہیں بلکہ پوری ٹیم کوجاتا ہے۔ کپتان رہنمائی کرتاہے جبکہ ٹیم کی محنت اور فرض شناسی انہیں کامیابی دلاتی ہے۔ لہذاٹریفک قوانین پر عملدرآمد اورمسائل کے حل کیلئے ٹریفک پولیس کی اوور ہالنگ ناگزیر ہے۔لائسنس کے اجراء میں میرٹ ہونی چاہیئے‘ اس طرح کمسن لڑکوں کے لئے گاڑیاں‘ رکشہ اورموٹر سائیکل چلانے پر پابندی ہونی چاہیئے۔ اس مقصد کے لئے تمام تر ذمہ داری ان کے والدین اور سرپرستوں پر ہونی چاہیئے۔ ٹریفک قوانین کے آگاہی کے لئے ٹاسک فورس قائم کی جائے جوکہ اسکولوں‘ کالجز میں ٹریفک قوانین سے متعلق لیکچرز دیں۔ مختلف پروگرامز منعقد کیئے جائیں‘ ٹریفک مسائل کے حل کے لئے نئی ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جائے‘ ای چلان سسٹم لاگو کیا جائے اور جیساکہ یورپ‘ خلیجی اورترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں کہ ٹریفک قوانین پر عمل کرانے کیلئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں‘ ان پر ہم اگر 60 فیصد بھی عمل کرلیں تو ہم ٹریفک حادثات کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔