اسلام آباد کے ایک شاپنگ مال پر کچھ گارمنٹس دیکھ رہا تھا۔ دوچار اور لوگ بھی اسی شغف میں مصروف تھے کہ ایک دلدوز پکار نے تقریباً سبھی کو متوجہ کر لیا تھا۔ ایک عمر رسیدہ خاتون دوائی کے ختم ہونے کی دہائی دے رہی تھی۔ دکاندار نے دھتکار کر باہر کیا اور بڑبڑایا " یہ اندر بھی چین نہیں لینے دیتے" باہر نکلتے نکلتے ایک اور سینہ شگاف صدا، بڑی بی کے لبوں سے نکلی، یا اللہ ! اب میں کیا کروں، کسے کہوں، کہاں جاو¿ں؟ آدھ پون گھنٹہ بعد شاپنگ مکمل کرکے باہر نکلا تو فٹ پاتھ پر لوگوں کا ہجوم تھا۔ اندر جھانکا، تو ضعیفہ بے سدھ پڑی تھی اور لوگ تاسف کر رہے تھے کہ بیچاری چل بسی۔
اس واقعہ کو مہینے سے اوپر بیت گیا۔ یاد کرتا ہوں، تو پریشان ہو جاتا ہوں اور خود کو بھی اس سانحہ کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔ بے شک گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ اہل حاجت میں دو نمبروں کی بھر مار سے مستحقین بھی محروم رہ جاتے ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024