احتجاج نہ صرف ہر کسی کا آئینی اور قانونی حق ہے بلکہ ہر جمہوری معاشرے کا حُسن بھی مگر اُس وقت تک جب یہ آئین اور قانون کے دائرے میں ہو۔ مہذب اور صحیح معنوں میں جمہوری معاشروں میں تو خاموش احتجاج بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ احتجاج کی وجوہات ہی حکومتوں اور اربابِ اختیار کے لیے باعثِ تشویش اور لمحہ فکریہ ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں دوسری چیزوں کیطرح احتجاج کا طریقہ اور منطق بھی دوسروں سے مختلف ہے۔ ایک تو یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں جب تک احتجاج کا انتہائی طریقہ اختیار نہ کیا جائے اُس وقت تک شنوائی بھی کم ہی ہوتی ہے۔ لہذا اب احتجاج بھی ہماری زندگیوں کا ایک لازمی جزو بن چُکا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جب ملک کے کسی حصے یا شہر میں احتجاج نہ ہو رہا ہو۔ اس سے ایک طرف عوام کے لئے بے پناہ مشکلات پیدا ہوتی ہیں تو دوسری طرف ملک کی بھی بدنامی ہوتی ہے۔ دھرنا بھی احتجاج ہی کی ایک شکل ہے جسے کسی حد تک ایک انتہائی طریقہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ دُنیا میں شاید ہی کوئی اور ملک ہو جہاں یہ طریقہ اتنے تواتر اور شدت کے ساتھ اختیار کیا جاتا ہو۔ اس کا فائدہ تو کُچھ نہ کُچھ ہوتا ہی ہے مگر ایک نقصان بھی ہوا ہے اور وہ یہ کہ حکومتوں کا رویہ بھی غیر سنجیدہ اور سرد مہری کا سا ہوتا جا رہا ہے اور نتیجتاً یہ طریقہ بھی اپنی افادیت کھوتا جا رہا ہے جسکی تازہ ترین اور سب سے موزوں مثال اسلام آباد میں جاری تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کا دھرنا ہے۔ ہمیں جمہوریت کے اصل تقاضوں سے تو آگاہی نہیں مگر اس کے منفی اور غیر موزوں طور طریقوں سے ہم سب واقف ہیں۔ جمہوریت میں اجتماعیت کے ساتھ ساتھ انفرادی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں جن کی پاسداری صرف حکومت کا نہیں بلکہ عوام کا بھی فرض ہے۔ جمہوریت آزادیِ رائے کا حق تو دیتی ہے مگر ایک ضابطے اور اصول کے تحت اور اسی طرح احتجاج تو ہر کسی کا جمہوری حق ہے لیکن ایک مروجہ طریقے اور ملکی آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے۔ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہم اپنا احتجاج کا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے کہیں دوسروں کی حق تلفی اور آزادی میں خلل تو نہیں ڈال رہے۔ دوسروں کے نام پر اپنے حق کا استعمال کوئی جمہوری رویہ نہیں۔ دھرنے جہاں ایک طرف اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کا ایک موثر طریقہ ہے تو دوسری طرف اس سے عوام الناس کی زندگیوں میں لا تعداد مشکلات بھی پیدا ہوتی ہیں جن کا مداوا کون کرے گا۔ تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک نے اسلام آباد میں دھرنوں کا اعلان کیا تو اسے عوام کے ملے جُلے ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ عام خیال یہی تھا کہ اس طریقہِ احتجاج سے افراتفری اور غیر یقینی کی سی صورتِ حال پید ہو گی جس کے نتیجے میں شاید حکومت تبدیل ہو جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک طبقے کا خیال یہ بھی تھا کہ حکومتوں کی تبدیلی کیلئے یہ طریقہ کار درست نہیں۔ سیاست لچک،برداشت اور رواداری کا نام ہے جس کا محور صرف اور صرف عوام کی خوشحالی ہوناچاہیے۔ انا اور ضد پر مبنی سیاست سب کیلئے نقصان دہ ہوتی ہے۔آج جب ان دھرنوں کو شروع ہوئے 70 دن سے زائد عرصہ گزر چُکا ہے تو حالات بہت مختلف ہیں۔ عوامی تحریک نے اپنا دھرنا ختم کر دیا ہے جب کہ تحریکِ انصاف پر بھی اسے موخر کرنے کیلئے دبائو بڑھ رہا ہے کیونکہ اب اس میں وہ اثر اور جذبہ نظر نہیں آتا۔ دھرنوں کے قائدین نے 70 دن تک ہر ممکن طریقے سے اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔ میڈیا نے ہر چیز بھُلا کر بھرپور کوریج دی اور رہنمائوں نے بھی اپنے سیاسی مخالفین کی کردار کشی میں کوئی کسر نہ چھوڑی ،نہ اخلاقیات کا کوئی بھرم رکھا گیا اور نہ ہی ذاتی اقدار کا جو کہ کسی طور بھی ایک قابلِ تقلید مثال نہیں۔ دار لحکومت کو دُنیا بھر میں ایک تماشہ بنا کر رکھ دیا گیا جس سے حکومت سے زیادہ ملک کی جگ ہنسائی ہوئی۔ حکومتی عمل داری اسلام آباد کی حد تک نہ ہونے کے برابر رہ گئی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے عوام کی نظروں میں ایک مذاق بن کر رہ گئے۔ اس ساری صورتِ حال میں دُشمن کا کام بھی بہت آسان ہو گیا اور اُس نے بھی ہماری ہزیمت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ دُنیا نے ہمیں خود ہی اپنا سب سے بڑا دُشمن قرار دیا جو کہ غلط بھی نہیں۔ سیاسی اور معاشرتی تفریق خطر ناک حد تک بڑھ گئی جو کہ اب نفرتوں میں تبدیل ہو رہی ہے۔ نااُمیدی اور غیر یقینی عرُوج پر ہے جس سے نوجوان نسل میں تیزی سے بد دلی پھیل رہی ہے۔ عوام کے جذبات کو اس ھد تک بھڑکا دیا گیا کہ کسی کا کسی پر اعتماد ہی نہیں رہا۔ ہر ادارہ اپنی افادیت کھو تا ہوا نظر آرہا ہے۔ انسانی جذبات اور رویوں کے استحصال کی اس سے بڑی مثال دُنیا میں شاید کم ہی ملتی ہو۔ یہ سب اپنی انا اور مفاد کی خاطر کیا جا رہا ہے اور استعمال ہمیشہ کیطرح غریب عوام ہو رہے ہیں۔ احتجاج کا یہ طریقہ اس حد تک بے وقعت کر دیا گیاہے کہ اب مستقبل میں حکمرانوں کیلئے یہ بھی دبائو ڈالنے کا کوئی موثر طریقہ نہیں رہے گا۔ دھرنوں کا اس طرح غیر منتقی اختتام بھی کوئی نیک شگون نہیں۔ یہ ساری صورت حال ہمیں اپنے رویوں کو ازسرِ نو تشکیل دینے کی متقاضی ہے تا کہ ہم بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی حالات کا مقابلہ کر سکیں ورنہ ہم دُنیا کیلئے نہ صرف بے وقعت ہو جائیں گے بلکہ اپنے وجود کو بھی خطرات سے دوچار کرتے رہیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اتحاد و یگانگت،برداشت اور روشن خیالی پر مبنی اجتماعی سوچ اپناتیں جس کا مقصد اپنی آزادی۔خودمختاری اور روایات کا تحفظ ہو نہ کہ اپنی انا اور مفاد کی ترویج۔ احتجاج اس شدت اورتواتر سے بھی نہیں ہونا چاہیے کہ غیر موثر ہو جائے اورہمیں اسے اپنی زندگیوں کا حصہ بنالیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024