والد محترم حضرت آغا شورش کاشمیریؒ کو آج ہم سے جدا ہوئے 38 برس ہوگئے ہیں۔ میں اس وقت ساتویں جماعت کا طالب علم تھا اور اپنے والد محترم کی خطابت کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا لیکن انہیں تقریر کرتے ہوئے سنا اور نہ ہی دیکھا تھا۔ ہم چند دوستوں نے پروگرام بنایا اور ہم نومبر یا دسمبر 1973ءبروز اتوار موچی دروازے باغ کی طرف چل پڑے جہاں والد محترم نے بانی جماعت اسلامی سید مولانا ابوالااعلی مودودیؒ ،قائد جمہوریت نواب زادہ نصراللہ کی ہمراہی میں عوام سے خطاب کرنا تھا۔ والد محترم جلسے کے آخری مقرر ہوا کرتے تھے، وہ رات ساڑھے گیارہ بجے تقریر کے لئے اٹھے، عوام کا ایک جم غفیر جلسہ گاہ میں امڈ آیا۔ عوام کی کثیر تعداد کے پیش نظر موچی دروازے کے باہر بھی مختلف مقامات پر لاﺅڈ سپیکرز لگائے گئے تھے۔ جلسے کی غرض و غایت کا تو مجھے معلوم نہیں لیکن والد محترم کے کچھ الفاظ آج بھی میرے حافظے میں گونج رہے ہیں۔ وہ ہر اعتبار سے قدآور تھے، انہوں نے اپنے مخصوص انداز سے بارعب آواز میں کہا لوگو!
”سچ بولنا بڑا خطرناک ہے، سچ سے زیادہ کوئی شے کڑوی نہیں۔ سچ کے لئے ہمیشہ دو کی ضرورت ہوتی ہے، ایک وہ جو سچ بولے اور دوسرا وہ جو سچ سنے، سچ تبھی مکمل ہوتا ہے۔ یہاں سچ بولنے والے کم اور سننے والے کمیاب بلکہ نایاب ہیں۔ حضرات! اکثر سچائیاں صرف اس لئے ناکام ہوگئیں کہ ان کے پاس طاقت نہ تھی اور بیشتر جھوٹ اس لئے کامیاب ہوگئے کہ انہیں طاقت نے پروان چڑھایا“
پھر کہا کہ” لوگو!آج کل سچائی قوت کی مرضی اور حق طاقت کی خواہش کا نام ہوگیا ہے“
آج اس واقعہ کو تقریباً چالیس سال گزر چکے ہیں اور ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اور اپنے گرد و پیش جن حالات واقعات سے دوچار ہیںشورش کاشمیریؒ کے یہ الفاظ حقیقت کا روپ لئے نظرآتے ہیں۔ یہاں مجھے انہی کے چند اشعار یاد آرہے ہیں....
زیادہ دن نہیں ہوئے یہاں کچھ لوگ رہتے تھے
جو دل محسوس کرتا تھا علی الا علان کہتے تھے
گریباں چاک دیوانوں میں ہوتا تھا شمار ان کا
قضا سے کھیلتے تھے وقت کے الزام سہتے تھے
بڑے لوگ بنائے نہیں جاتے بلکہ پیدا ہوتے ہیں اور انہیں مخصوص وقت پر ایک خاص کام کے لئے لایا جاتا ہے۔ ہر شخص کو رب العزت نے کوئی نہ کوئی فریضہ سونپ رکھا ہوتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ میرے والد محترم آغا شورش کاشمیریؒ کو آقائے دو جہاں حضرت محمد کی غلامی اور عقیدہ ختم نبوت کی پاسداری کے لئے پیدا کیا گیا بقول شورش کاشمیری....
جان وقف کر چکا ہوں محمد کے نام پہ
یہ ہے دلیل خاص میرے افتخار کی
ایک اور جگہ لکھتے ہیں
یوں تو ہیں ختم نبوت کے علمبردار بہت
لیکن اس عشق میں شورش سر میدان نکلا
نبی کریم سے ان کی عقیدت، محبت اور عشق کی کوئی انتہا نہیں تھی۔بلاشبہ وہ ان گنت خوبیوں کے مالک تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں تحریر و تقریر میں جو مقام دے رکھا تھا وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ علم و ادب ہو یا صحافت و سیاست کا میدان، ان کا جداگانہ طرز تحریر اور منفرد انداز اپنے اساتذہ کرام کے ساتھ شانہ بشانہ چلتا ہوا نظر آتا ہے۔
حضرت شورش کاشمیریؒ نہ صرف بلند پایہ خطیب تھے بلکہ زبان و بیاں میں اس قدر قدرت حاصل تھی کہ وہ لوگوں کے دل و دماغ سے کھیلتے تھے۔ الفاظ ان کی زبان پر حاضر رہتے اور مطلب ان کے نطق کو بھروسہ دیتے۔ سب سے نمایاں پہلو جو ان کی شخصیت کو ممتاز کرتا ہوا نظر آتا ہے وہ ان کی بے خوفی اظہار ہے۔ انگریز کا دور ہو یا انگریز نما ملکی حکمرانوں کا غر و ر و طنطنہ ان کی تحریر و تقریر میں خاک میں اڑتا ہوا نظر آتا ہے۔
وہ کہا کرتے تھے! ”میرا قلم اس شخص کو دیا جائے جو اس کو تیشہ کوہ کن بنا سکے، جس کو لہو سے لکھنے کا سلیقہ آتا ہو اور مجھے وہ شخص کفن پہنائے جس کی غیرت نے کبھی کفن نہ پہنا ہو اور جس کا اوڑھنا بچھونا صرف اسلام ہو“
ان کی تحریر و تقریر دونوں میں بے پناہ سحر تھا اور یہ جادو اس وقت سر چڑھ کر بولتا جب ان کے مدمقابل حکمران طبقہ یا اس کے حواری ہوتے۔ شورش کاشمیری کے قلم سے نکلنے والا ہر جملہ اپنے اندر خطابت کا رنگ، شعر کی حلاوت اور ادب کی گھلاوٹ لئے ہوئے ہے۔ ان کے جملے ذہن کو مسرت، روح کو تازگی اور نظر کو وسعت مہیا کرتے ہیں۔
میں اس حقیقت کا بھی برملا اعتراف کرتا ہوں کہ میرا قلم والد محترم جیسی ہمہ جہت شخصیت کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ ان کے سیاسی، صحافتی، ادبی، خطیبانہ اور شاعرانہ پہلوﺅں پر لکھنا یا بولنا مشکل ترین کام ہے، اس کے لئے علم کی وسعت، نظر کی گہرائی اور فکر کی گیرائی درکار ہے۔
میں اس وقت ایک ایسے رشتے کے حوالے سے کچھ کہنا اور لکھنا چاہتا ہوں جس کی تشنگی اور کسک ہم بہن بھائی آج بھی پوری شدت سے محسوس کرتے ہیں، وہ پہلو ہے بطور والد ان کا ہم سے رشتہ۔ یہ ایک حقیقت ہے اور المیہ بھی کہ حقیقتاً بڑے انسانوں کے پاس اپنی اولاد کے لئے بہت کم وقت ہوتا ہے ۔ہم گیارہ بہن بھائی ہیں والد محترم کی صحبت بہت کم میسر آئی، انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ پس دیوار زنداں گزارا بلکہ وہ خود کہا کرتے تھے کہ میں اپنا تخلص ”شورش رکھوں یا جیل“
ہم آج جہاں کہیں بھی ہیں اپنی والدہ محترمہ کی دعاﺅں کی ہی بدولت ہیں۔ انہوں نے ہمیں والد محترم کی وفات کے بعد اس طرح پالا جیسے کوئی مصور اپنے شہ پاروں کی رکھوالی کرتا ہے۔ والد محترم صبح جلدی اٹھنے کے عادی تھے۔ گھر کے باہر لان میں وہ بیٹھتے، اخبارات کا مطالعہ شروع کر دیتے، مجھے بھی صبح جلدی اٹھنے اور اخبار بینی کی عادت اپنے والد محترم سے ملی ۔ صبح ہوتے ہی ان کیلئے تین چیزیں لازم ہوا کرتی تھی، اخبارات کا مطالعہ جن میں نوائے وقت سرفہرست تھا، کشمیری سبز چائے ہمراہ کلچہ اور پھر محترم مجید نظامی سے ٹیلی فون پر حالات حاضرہ پر تبادلہ خیال۔ جناب حمید نظامی مرحومؒ اور جناب مجید نظامی سے والد محترم کی دوستی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ جناب حمید نظامی مرحومؒ کو ہم نے دیکھا نہیں صرف والد محترم سے سنا ہے کہ وہ حقیقتاً جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے میں رتی بھر نہیں چونکتے تھے، لیکن محترم مجید نظامی سے ان کا اخلاص، دوستی، محبت اور احترام کے رشتے کو بہت قریب سے دیکھا بھی ہے اور مجھے یہ کہنے میں بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ جناب مجید نظامی نے اس رشتے کو آج تک زندہ رکھا ہوا ہے....
پردہ¿ ذہن پہ یوں نقش ہے تیری یادیں
جیسے مریم کی تصاویر، کلیساﺅں میں!
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38