ملالہ بخار اتر گیا۔اب وقت ہے کہ ہم پلٹ کر اپنے رویوں کا احتساب کریں۔ ہم باعلم صاحبِ شعور،با ادراک ہونے کے دعوے دار ہیں۔ اسلام پسندوںکی جذباتیت پر بڑے نالاں ہوتے ہیں لیکن ملالہ کیلئے ہم نے دیہاتی محاورہ پورا کردکھایا کسی کو آواز لگادی گئی:کتا تمہارے کان لے گیا،اُس نے یہ سنتے ہی کتے کے پیچھے دوڑ لگادی اور جب ہار، ہانپ گیا تو کسی کی توجہ دلانے پر اپنے کان چھو کر دیکھے کہ وہ تو بدستور اپنی جگہ پر قائم ہیں!
ان واقعات کا المیہ یہ ہے کہ ابتدائی جنون کے تو تمام آثار ہوتے ہیں۔ کف آلودزبانیں، لال بھبھو کا چہرے،شعلہ بار نگاہیں لیکن حقائق پرت در پرت کھلتے ہیں۔ردّ عمل کا بے محل ہونا ثابت ہوجاتا ہے۔غبارے سے ہوا نکل کر وہ چیتھڑا سارہ جاتا ہے لیکن شرمساری ہم نے نہیں سیکھی۔ اسی لئے بار بار غلطیاں دہرائی جاتی ہیں۔ پھر اچانک کوئی نیا طوفان سر اٹھاتا ہے۔دوسری منزل پہ کھڑے کو اچانک کسی نے مخاطب کرکے آواز لگائی ’ دولت خان تمہاری بیوی بھاگ گئی‘۔ آﺅ دیکھا نہ تاﺅ چھلانگ لگادی۔ٹانگ تڑوا کر ہوش ٹھکانے لگے تو یاد آیا کہ ابھی تو شادی ہی نہیں ہوئی۔ اور نام بھی دولت خان نہیں! سو یہی اس قوم کا المیہ ہے۔
ملالہ پر حملے کا اتنا غیر معمولی بین الاقوامی ردِ عمل کہ اسے 9/11اور ایبٹ آباد آپریشن کے برابر قراردیدیا؟ آدھی دنیا ملالہ ہوگئی۔یہ ناز برداریاں؟ ہمیں ساتھ ملا کر بین کرنے کی بجائے اگر تمہیں مسلمان بیٹیوں سے اتنی بے پناہ محبت ہے تو ہماری کشمیری بچیوں کو امریکی چوہدری آزاد کیوں نہیں کرواتے؟ اسرائیلی مظالم۔ غزہ میں بھوک،ادویات کی قلت سے ایڑھیاں رگڑتی معصوم بچیاں انہیں دکھائی کیوں نہیں دیتیں؟ ان کی امداد کیلئے جانے والے بحری قافلے، انسانی حقوق کے کارکنان کو کیوں اسرائیلی بحریہ نے حملے کا نشانہ بنایا؟ طویل محاصرے کا یہ غیر قانونی، غیر انسانی جبر، بین الاقوامی ضمیر(اگر وہ ہے تو!) پر ہتھوڑے کیوں نہیں برساتا؟ عشقِ رسالت کا طوفان اٹھتا دیکھ کر انکی سِٹّی گم ہوئی اور یہ سارا شور شرابہ دھیان بٹانے کا تھا۔
تمام حقائق کھل چکے ہیں۔ یہاں سے وہاں تک۔ آزاد ذرائع سے اس کی حقیقی صورتحال کی تصدیق،تائید ممکن نہیں۔ حتیٰ کہ 14 سال کی عمر کی لڑکی تن تنہا بغیر والدین یا محرم رشتہ دار کے اپنے بی بی سی رشتہ داروں، کے رحم و کرم پر چھوڑ دی گئی؟یہ کتنا غیر فطری اور غیر معمولی ہے! لڑکی (پاکستانی،سوات جیسے علاقے سے) خوفناک علالت میں ہو اور ماں پاس نہ ہو؟ اسکی غم خوار میڈونا اور انجلینا جولی ہوں۔ والدین پاس نہ ہوں! قوم کو سوالوں میں الجھنے سے بچانے کیلئے اگلا ڈھول رنگا رنگ کھیلوں،تماشوںکا پیٹ دیا گیا۔ لہٰذا سب بھول گئے! کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیںہیں؟
حالانکہ ہر آن انفرادی و قومی احتساب ہی ایک زندہ قوم کی علامت ہوتی ہے ....
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب!
ہنگامہ ہائے ملال کے ساتھ شمالی وزیرستان آپریشن کا کورس گایاجاتا رہا۔یہاں تک کہ پھر مایوس ہوکر نیو یارک ٹائمز نے غم کا اظہار کیا کہ ٹیمپو ٹوٹ گیا اور آپریشن کا وقت ہاتھ سے نکل گیا! یہ ساری جنگ روزِ اول سے جھوٹ،فریب کی بنیاد پر ہے۔ آئے دن پرانے جھوٹ کھلتے اور نئے بولے جاتے ہیں۔
سینٹ میں اب سیکرٹری دفاع مطلع فرما رہے ہیں کہ دسمبر 2011ءتک نہ صرف ہم نے شمسی بیس امریکہ کو ڈرونز کیلئے مفت دئیے رکھا بلکہ ڈرون حملے حکومتی منظوری سے ہوتے رہے (امریکہ سے اپنے بندے مفت مروائے،ٹکا بھی وصول نہ کیا) تو پھر اس عرصے میں فارن آفس جو امریکہ سے احتجاج کیا کرتا تھا ڈرون حملوں پر‘ قوم کو ہوش کے ناخن لینے ہونگے۔
آپریشن درآپریشن ایک ایک قبائلی علاقے میں کئی کئی مرتبہ آپریشن۔فضائیہ کی بمباریاں۔توپ خانے سے آگ اگلتے۔کچے گھر گراتے گولے، راکٹ۔یہ پاکستان کے استحکام و ترقی کا کون سا فارمولا ہے جسے امریکہ نواز،ملک دشمن عناصر مستقل اورمسلسل تجویز کر رہے ہیں؟
اس وقت بھی قوم کو یہ دھوکہ دیاجارہا ہے کہ آپریشن نہیں ہوگا۔لیکن اس دوران بھی بمباری اور گولہ باری جاری ہے۔میران شاہ بازار پر راکٹ پھینک کر عورتیں بچے نشانہ بنائے گئے ہیں۔ مسلسل کرفیو لگا کر آبادی کو محصور کر رکھا ہے۔ باڑہ( خیبر ایجنسی) تین سال سے کرفیو اور تباہی کی زد میں ہے۔ آبادی دربدر ہے۔ ہمیں اس گھناﺅنے کھیل سے نکلنا ہوگا۔
’ملالہ ‘کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لگے ہاتھوں یہ پروپیگنڈا بھی بہت ہوا کہ ’حملے کا مقصد جہالت کا راج قائم کرنا ہے ۔علم کیا ہے‘ وہ قوم کیا جانے جسکے نصابوں سے ہی اسے خارج کردیا گیا ہو ۔وہ فریب خوردہ شاہین جو پلاہو کرگسوں میں اسے کیا خبر کہ کیا ہے وہ رسم شاہبازی! اس (علم!) کو جو انہوں نے کہا تھا وہی اس نے کر دکھایا۔ تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب، سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر۔
اقبالؒ نے ’علم‘ کو( جس کے ملال میں اتنے نوحے لکھے گئے ہیں) ’مکرو فن‘ تخریبِ جاں،تعمیر تن کہاتھا۔ فارسی اشعار میں کہا یہ علم و دانائی جسم کی پرورش تو کرتی ہے لیکن اسکے زیر اثر روح بیمار ہوجاتی ہے۔اس علم سے انسان دین سے آزاد اور عشق و روح کے تقاضوں سے بیگانہ ہوجاتا ہے۔ یہ ’حکمت و عقل‘ تعلیم گاہوں میں غلام پیدا کرتا ہے۔ایسے علم کے بارے میں ہی کہا گیا ہے....ع
علموں بس کریں اویاراِکو الف ترے درکار! اللہ کے ’الف‘ کو تھام لیجئے۔
٭....٭....٭
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024