نون الف
ایم اکرم ذکی کا شمار پاکستان کے انتہائی منجھے ہوئے سفارت کاروں میں ہوتا ہے۔ امور خارجہ میں تو انہیں استاد کا درجہ حاصل ہے۔ آپ نے 1954ءمیں پاکستان فارن سروس میں شمولیت اختیار کی اور چار دہائیوں تک خدمات انجام دینے کے بعد 1993ءمیں ریٹائر ہو گئے۔ مارچ 1991ءتا ستمبر 1993ءتک پاکستان کی وزارت امور خارجہ میں سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز رہے۔ آج کل پاکستان مسلم لیگ کے سینئر وائس پریذیڈنٹ ہیں۔ مستقبل قیام اسلام آباد میں ہے، آج کل لاہور آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ایڈیٹر انچیف نوائے وقت گروپ جناب مجید نظامی سے ملاقات کی، ان کو پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری ملنے پر مبارکباد دی اور ان کی قومی، ملی اور صحافتی خدمات کو سراہا۔ بعد ازاں انہوں نے نوائے وقت سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیادوں کا تعین تو قائد اعظمؒ نے کر دیا تھا۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کلید یہ ہو گی کہ دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ انتہائی دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں۔ انہوں نے کہا اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ قائد ملت نواب زادہ لیاقت علی خان نے روس کی طرف سے دورے کی دعوت ٹھکرا کر امریکہ جانے کو ترجیح دی۔ دراصل روس نے قائد ملت کو جن تواریخ میں روس کے دورے کی دعوت دی تھی، وہ پاکستان کے پہلے یوم آزادی کا وقت تھا جبکہ لیاقت علی خان وسطی ایشیائی مسلم ریاستوں کا دورہ بھی کرنا چاہتے تھے جس کے باعث روس کا دورہ ملتوی کر دیا۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ پاکستانی حکمرانوں کی حد سے بڑھی ہوئی امریکہ نوازی کو چین کی موجودہ قیادت کس نظر سے دیکھتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ چین کا بنیادی مفاد یہ ہے کہ پاکستان مستحکم رہے۔ پاکستان، چین کی ایک قومی ضرورت ہے کیونکہ چین کو چاروں اطراف سے امریکہ نے گھیرا ہوا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہماری قیادت کا بہت زیادہ جھکاﺅ امریکہ کی طرف ہے، چینی قیادت ہمارے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھنے کے حوالے سے بہت سنجیدہ ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اندر صرف 1990ءنہیں بلکہ دیگر انتخابات میں بھی مختلف انداز میں دھاندلی روا رکھی گئی۔ ڈرون حملوں پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں یہ حملے ختم نہیں ہوں گے اور اس کی بنیادی وجہ امریکی حکومت کی یہ ترجیح ہے کہ دوران جنگ کوئی گورا امریکی نہ مارا جائے۔ امریکیوں کے پاس ڈرونز کی صورت میں اب ایک ایسا ہتھیار آ گیا ہے جس کے استعمال میں ان کا اپنا کوئی فوجی ہلاک نہیں ہوتا۔ دنیا کچھ بھی کہے، ڈرونز کا استعمال بند نہ ہو گا۔ میری معلومات کے مطابق تو پرویز مشرف نے امریکہ کو پاکستانی علاقوں میں ڈرونز کے ذریعے کارروائیوں کی اجازت دی تھی اور یوں لگتا ہے کہ مشرف کی رخصتی کے بعد سیاسی حکومت نے بھی یہ اجازت واپس نہیں لی۔ 1971ءکی پاکستان بھارت جنگ میں امریکہ کے کردار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ان دنوں میں واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کے نائب کے طور پر تعینات تھا۔ اگرچہ ان دنوں وہاں کی رائے عامہ ہمارے خلاف تھی مگر امریکی صدر رچرڈ نکسن اور وزیر خارجہ ہنری کسنجر ہماری پوری مدد کر رہے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو اس وقت نور الامین حکومت میں نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ تھے۔ وہ امریکہ آئے تو ہنری کسنجر نے بھٹو سے کہا کہ ہماری اطلاعات کے مطابق مشرقی پاکستان کا سقوط قریب ہے اور اس کے بعد بھارت مغربی پاکستان پر بھرپور حملہ کرے گا۔ بہرحال صدر نکسن نے روس کو پیغام بھجوایا کہ بھارت کو آگاہ کر دو کہ امریکہ کے لئے مغربی پاکستان کی تباہی قابل قبول نہیں ہے اور اس سلسلے میں ہم ساتواں بحری بیڑہ روانہ کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے حوالے سے اکرم زکی کا کہنا تھا کہ دراصل یہ امریکہ کی اسلام کے خلاف جنگ ہے اور سابق امریکی صدر بش اور سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر اسے ”کروسیڈ“ قرار دے چکے ہیں۔ مختلف دھڑوں میں بٹی مسلم لیگوں کے اتحاد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں مجید نظامی نے بھی بہت کوشش کی ۔ تمام نظریاتی مسلم لیگی یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ کو متحد ہونا چاہیے مگر یہ اتحاد شخصیات سے بالا تر ہونا چاہیے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024