پاکستانی اور عالمی سیاست کا تقابلی جائزہ

ملک میں جاری منفی اور ذاتی مفادات کے اردگرد گھومنے والی سیاست کے باعث قوم آج جن گھبیر مسائل سے دوچار ہے اور من حیث القوم بانیء پاکستان محمد علی جناح کے اصولوں کو جس طرح نظرانداز کیا جا رہا ہے‘ ان سے یہ اندازہ لگانا کہ آزادی کے 76 برس گزرنے کے باوجود خود غرض اور مفاد پرست سیاست دان‘ جاگیردار اور وڈیرے قیام پاکستان کا حقیقی ادراک کیوں نہ کر سکے قطعی دشوار نہیں۔ ملک سیاسی دلدل اور غیریقینی صورتحال میں جس طرح آج پھنسا ہے‘ قائد کا ہرگز خواب نہ تھا۔ اس سے بڑا قومی المیہ اور کیا ہو گا کہ قوم کو برطانوی جمہوریت کا لالی پاپ دے کر صرف اور صرف قومی سیاست پر گفتگو کرنے تک محدود تو کر دیا گیا‘ مگر وہ قومی ذمہ داریاں پوری نہ کی گئیں جو اسلام کے نام پر حاصل کی گئی اس آزاد ریاست کی بنیاد تھیں‘ لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کی گئی جس خودمختار مملکت کا ’’ ماٹو‘‘ اسلامی معاشرے کا قیام‘ عدل و انصاف‘ بے روزگاری‘ غربت و افلاس کا خاتمہ اور مساوات کا فروغ تھا۔ وہاں کے ایک عام آدمی سے لے کر بعض 17 سے 22 گریڈ کے اعلیٰ افسروں تک کو ملک میں بڑھتے مسائل پر فکرمند پایا۔ اسی طرح اپنے حالیہ دورہ کے دوران عام اور دیہاڑی دار افراد کو معاشی مسائل کے بجائے ملک کی تیزی سے بدلتی سیاسی صورتحال میں زیادہ دلچسپی لیتے تو دیکھا مگر بعض دوستوں سے جب یہ پوچھا کہ دنیا میں پاکستان کی بگڑتی معاشی اور اقتصادی صورتحال کو وہ کس انداز سے دیکھتے ہیں؟ گرین پاسپورٹ کی عزت و توقیر کو وہ کیسے محسوس کرتے ہیں‘ اداروں اور عوام کے مابین جاری خاموش اختیاراتی جنگ سے اکانومی پر پڑنے والے منفی اثرات کو وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟ پاکستان میں جاری طویل بے یقینی سیاسی صورتحال کو ترقی یافتہ ممالک کس تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ امریکہ اور پاکستان کے غیرمشروط دوستانہ تعلقات کہاں تک مستحکم ہیں؟ تو انہوں نے ملک کے تیزی سے تبدیل ہوتے سیاسی حالات کو مذکورہ سوالات پر ترجیح دیتے ہوئے کہا کہ ملکی خارجی امور اور بیرونی دنیا میں ملک کی عزت و احترام کو یقینی بنانا حکومت وقت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے اور یہی وہ عالمی اصول ہے جس سے دنیا میں زندہ اور غیور قوموں کی شناخت ہوتی ہے۔ اب حکومت جانے اور اس کا کام اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سرکاری ادارے میں اہم ذمہ داری پر مامور دوست کا کہنا تھا کہ قوموں کا وقار اپنے ممالک میں قائم حکومتوں کی کارکردگی اور دنیا کے ترقی یافتہ اور غیرترقی یافتہ ممالک سے قائم تعلقات پر چلتا ہے۔ ابھی چند ہفتے ہی تو گزرے ہیں امریکہ نے جب پاکستان کو دنیا میں انتہائی خطرناک ملک قرار دیا۔ یہ جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی کہ افغان امریکی جنگ میں پاکستان امریکہ کا اہم ترین اتحادی رہا۔ امریکہ کی تمام جائز اور ناجائز خواہشات بھی پوری کیں مگر بیس برس تک لڑی گئی اس پرائی جنگ میں 80 ہزار بے گناہ پاکستانی افراد کی قربانیاں دینے کے باوجود امریکہ نے پاکستان پر جہاں چار سو ڈرون اٹیکس کئے‘ وہیں ڈومور کی تلوار بھی لٹکائے رکھی۔ اس قدر قریبی کولیشن پارٹنر ہونے کے باوجود امریکہ پاکستان پر اپنا اعتماد بحال نہ کر سکا۔ دوستی کیا اسے کہتے ہیں؟ دوست نے جذباتی انداز میں کہا‘ فیٹف کے گرے لسٹ سے نکلنے کا معاملہ بھی دنیا کی تمام مہذب قوموں کے سامنے ہے۔ 2018ء سے عائد پابندیوں سے جس طرح پاکستان پر معاشی دبائو رکھا گیا‘ وہ بھی کسی سے ہرگز ڈھکا چھپا نہیں۔ صرف ایک پوائنٹ کی پابندی سے پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی کی گئی۔ اب اگلے روز پاکستان جب ’’فیٹف‘‘ کی آخری شرط پوری کر چکا تو برطانیہ نے بغیر کسی تاخیر کے پاکستان کو دنیا کے خطرناک ممالک کی فہرست سے فوری طور پر نکالنے کا فیصلہ دے دیا۔ یہ سیاسی منافقت نہیں تو پھر کیا ہے؟ دوست نے مجھے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے انگریزی میں کہا۔ دوست امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی‘ یواین او اور ملکی سیاست کے ہر منفی پہلو پر کھل کر اظہار خیال کرنے کا تو حامی تھا مگر پٹواری‘ گرداور اور قانون گو سے اراضی فرد کے حصول میں درپیش مالی مشکلات‘ ڈی ڈی اوز کی ہدایات اور ایک عام آدمی کے اراضی کے حوالے سے درپیش مسائل پر کچھ کہنے سے وہ احتراز کرتا رہا۔ پٹواری سے حاصل کی گئی ملکیتی فرد کی جب اس سے سرکاری فیس کے بارے میں پوچھا تو اس نے ایک قہقہہ لگاتے ہوئے یہ فقرہ کہتے ہوئے کہ Say no to corruption موضوع تبدیل کر دیا۔
یہ دیکھ کر بھی مجھے دکھ ہوا کہ جس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بارے میں سکولوں‘ کالجوں کے ابتدائی نصاب میں ’’مطالعہ پاکستان‘‘ کا مضمون پڑھایا جا رہا ہے روزمرہ زندگی میں بیشتر طلبہ و طالبات کو اس موضوع پر دسترس ہی حاصل نہیں۔ یہ رونا میں نے گزشتہ کالم میں بھی لکھا تھا کہ شاعر مشرق علامہ اقبال کے سیالکوٹ کے کوٹلی بہرام چوک میں لگے مجسمے پر صبح و شام پڑی دھول پاس سے گزرنے والی بھاری ٹریفک کی بے اعتنائی اور بالخصوص مجسمے کے زیرسایہ ٹریفک پولیس کی کھڑی گاڑیوں میں ڈیوٹی پر مامور اہلکار اور افسران کی اس مجسمے کی صفائی سے عدم دلچسپی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سکولوں میں جس اقبال کے بارے میں بچوں کو پڑھایا جارہا ہے عملی زندگی میں ہم انکی یاد میں رکھے اس تاریخی مجسمے کو وہ اہمیت نہیں دے پا رہے جو دنیا میں اقبال کی خدمات پر غیرملکی دے رہے ہیں۔ جرمنی اور انگلستان کی کیمرج یونیورسٹی کے اقبالیات کے شعبے ہماری رگ حمیت جگانے کیلئے کافی ہیں۔ میری ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ سے یہ خصوصی استدعا ہوگی کہ یہ سطور انکی نظر سے اگر گزریں تو علامہ اقبال کے اس مجسمے کی ہفتہ وار صفائی کا کوئی معقول بندوبست کردیں کہ زندہ دل اور غیور قومیں ہمیشہ اپنے قومی زعما کے افکار و نظریات سے پہچانی جاتی ہیں کہ من حیث القوم اپنی شناخت کو ہم کسی بھی حال میں ُدھول اور آلودگی کی نذر ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔