پیٹرولیم مصنوعات کی قلت اور اسکا سدباب
گزشتہ 15دنوں سے ملک بھر میں پیٹرول و ڈیزل کی قلت ہے اور آئل مارکیٹنگ کمپنیز اپنے ڈیلرز کو ڈیزل و پیٹرول فروخت کرنے سے قاصر ہیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ ڈالر کی قلت کے باعث آئل مارکیٹنگ کمپنیز جب خود پیٹرولیم مصنوعات امپورٹ کررہی ہیں تو انہیں تقریباً 7روپے فی لیٹر نقصان ہورہا ہے۔ اسی وجہ سے آئل مارکیٹنگ کمپنیز نے پیٹرولیم مصنوعات امپورٹ کرنا بند کررکھی ہیں کیونکہ مسلسل بھاری نقصان کے باعث کمپنی کا وجود تک برقرار رکھنا مشکل ہوچکا ہے۔ کوئی بھی آئل مارکیٹنگ کمپنی کب تک نقصان برداشت کرے گی؟ جبکہ اسے اپنے بھاری آپریشنل اخراجات بشمول عملے کی تنخواہیں ادا کرنی ہوتی ہیں لیکن کئی ماہ سے یہ صورتحال جاری ہے جس کے باعث انہوں نے مزید نقصان سے بچنے کے لئے مزید امپورٹ روک رکھی ہے۔
پاکستان بھر کے پیٹرولیم بزنس کا 60%سرکاری کمپنی پی ایس او کے پاس ہے لیکن اسی صورتحال کے باعث پی ایس او بھی اربوں روپے نقصان کا سامنا کر رہی ہے۔ تمام نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیز کو ملاکر ان کے پاس ملکی پیٹرولیم بزنس کا 40%حصہ بنتا ہے۔ اس گھمبیر صورتحال میں پیٹرولیم ڈیلرز (پیٹرول پمپس) پر ڈیزل پیٹرول کی قلت شروع ہوچکی ہے لیکن اس کا کوئی حل نظر نہیں آرہا۔
پاکستان کی سرکاری و نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیز کو بندش سے بچانے کے لئے حکومت پاکستان کو فوری طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی ملکی ضرورت کی امپورٹ خود اپنے ہاتھ میں لینی ہوگی اور حکومت پاکستان خود پیٹرولیم مصنوعات امپورٹ کرکے آئل مارکیٹنگ کمپنیز کو انکے پیٹرولیم بزنس کی شرح سے حصہ فروخت کرے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد کی ذمہ داری حکومت کی ہے اور پیٹرولیم مصنوعات کی ملک بھر میں وافر موجودگی و فراہمی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں اوگرا کی جانب سے مبینہ طور پر دعوٰی کیا جارہا ہے کہ ملک بھر کی ضرورت کی 15دن کی پیٹرولیم مصنوعات موجود ہیں‘ یہ دعوٰی سراسر غلط ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قلت کی موجودہ صورتحال میں منافع خور عناصر زیادہ فعال ہوچکے ہیں اور عوام کو پیٹرولیم مصنوعات میں ملاوٹ کرکے ناقص ڈیزل پیٹرول سرکاری قیمت پر فروخت کئے جانے کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس سلسلے میں بھی حکومت کی جانب سے چیک اینڈ بیلنس کا موثر نظام ناپید ہونے کی وجہ سے غیر معیاری پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت کھلے عام جاری ہے جس سے گاڑی مالکان کی قیمتی گاڑیوں کے انجن تباہ ہورہے ہیں۔ حکومت نے پیٹرولیم ڈیلرز کے کمیشن میں مناسب اضافہ تو کردیا ہے لیکن پیٹرولیم مصنوعات کی شدید قلت کے باعث ملاوٹ کرنے والے عناصر زیادہ فعال ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1999ء سے 2008ء تک عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں اس وقت تک کی بلند ترین سطح پر تھیں کیونکہ 9/11کے فوری بعد دنیا بھر میں ہیجانی کیفیت تھی اور عالمی نظام معیشت میں ہنگامی تبدیلیاں ہورہی تھیں۔ ایسے وقت میں اسوقت کی حکومت نے بہترین معاشی پالیسیاں تشکیل دیکر ایک طرف ڈالر کو ایک ہی جگہ منجمد رکھا اور اس میں اضافہ نہیں ہونے دیا تو دوسری طرف پیٹرولیم مصنوعات ممکن حد تک کم ترین سطح پر برقرار رکھیںاور ایران سے سرکاری سطح پر موخر ادائیگی پر پیٹرولیم مصنوعات خرید کر قیمتوں کو استحکام میں رکھا۔ اس دور حکومت میں ایران سے بحری جہازوں کے ذریعے ملکی ضرورت کا تمام ڈیزل پیٹرول حکومت خود منگواتی تھی ۔ اس خام تیل کو اپنی ریفائنریز سے ریفائن کرکے مقامی آئل مارکیٹنگ کمپنیز کو فروخت کیا جاتا تھا۔ اس پورے دور حکومت میں یہی سلسلہ چلتا رہا جس کے باعث ملک بھر میں نہ تو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا‘ اور نہ ہی کبھی پیٹرولیم مصنوعات کی قلت پیدا ہوئی۔ ان کے دور حکومت میں عوام کو معیاری پیٹرولیم مصنوعات ملتی رہیں۔
اب حکومت اوگرا کے دعوؤں کے برعکس حقائق کو تسلیم کرے اور پیٹرولیم مصنوعات کی ملک بھر میں وافر فراہمی و موجودگی کے اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی آئل مارکیٹنگ کمپنیز کے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد اپنے ذمہ لے اور حکومت آئل مارکیٹنگ کمپنیز کو پیٹرولیم مصنوعات فروخت کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ فوری طور پر ایسے ممالک سے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد کے معاہدے کئے جائیں جو مال کے بدلے پیٹرولیم مصنوعات فروخت کرنے پر رضامند ہوں۔ اس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات کے معیار و مقدار کی صارفین تک درست فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے بھی حکومت سنجیدگی سے موثر اقدامات کرے۔تمام حکمرانوں سے قوم کا یہ سوال ہے کہ بھارت ایران سے سستی اور موخر ادائیگیوں پر پیٹرولیم مصنوعات خریدتاہے اور روس سے تیل خریدرہا ہے۔ ہم ایران اور روس سے تیل و گیس کیوں نہیں خرید سکتے؟ حکمران قوم کو سچ کیوں نہیں بتاتے؟ 2013ء میں صدر زرداری نے ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا معاہدہ کیا تھا۔ ایران نے اپنی حدود میں بہت عرصہ پہلے سے گیس لائن مکمل کر رکھی ہے لیکن ہماری گزشتہ دو حکومتوں نے اس پر کوئی پیشرفت کیوں نہیں کی؟عوام کو سچ بتائیں کہ آخر ہم بھارت کی طرح عالمی طور پر تیل و گیس خریداری کے آزادانہ معاہدے کیوں نہیں کررہے؟ جو معاہدے کئے ہیں‘ ان پر عملدرآمد کیوں نہیں کررہے؟