عام انتخابات اور ووٹوں کی گنتی کا اہم مرحلہ

پاکستان میں انتخابات کے لیے آزادانہ، منصفانہ، غیر جانب دارانہ، صاف اور شفاف جیسی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ ہر سیاستدان اور سیاسی جماعت کی خواہش ہوتی ہے کہ انتخابات انہی سنہری اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہونے چاہئیں لیکن جب انتخابات ہوجاتے ہیں تو یہ ہی سیاستدان اور سیاسی جماعتیں، جھرلو، دھاندلی، انجینئرڈ بلکہ الیکشن چوری، عوامی مینڈیٹ پر ڈاکا جیسی اصطلاحات استعمال کرنے لگتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عام لوگوں کا الیکشنز پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ الیکشن 2018ء میں تو ایک اور نئی بات ہوگئی۔بعض سیاسی جماعتوں اور ان کے ہارنے والے امیدواروں نے شکایت کی کہ ووٹوں کی گنتی کے وقت حساس ادارے کے ڈیوٹی پر موجود عملہ نے ان کے پولنگ ایجنٹس کو باہر بھیج دیا، اور ان کی غیر موجودگی میں ووٹوں کی گنتی کی گئی۔ جو صریحاً انتخابی قوانین کی کھلم کھلم خلاف ورزی تھی۔ ان انتخابات میں عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کو اکثریت حاصل ہوئی مگر اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں نے تحریک انصاف کی انتخابی جیت کو اسٹیبلشمنٹ کی مرہون منت قرار دیا۔ اپوزیشن سالہا سال عمران خان کو دھاندلی کی پیداوار اور سلیکٹیڈ وزیراعظم کہتی رہی۔ اس کی بنیادی وجہ ووٹوں کی گنتی کے عمل کا صاف اور شفاف نہ ہونا ہے۔
کسی جمہوری ملک میں صرف الیکشن کا انعقاد ہی اہم نہیں ہوتا، بلکہ اس انتخابی عمل پر عام لوگوں کا مکمل اعتماد اور پختہ یقین رکھنا بھی اہم ہوتا ہے۔ ووٹ ڈالے جانے سے زیادہ ووٹوں کا صحیح یا درست گنا جانا بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ امریکا جیسی بڑی اور قدیم جمہوریت میں بھی ووٹ کا گنا جانا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ الیکشن 2000ء میں جارج بش اور الگور کے درمیان کانٹے دار مقابلہ تھا۔ انچاس ریاستوں کا نتیجہ آچکا تھا، اور دونوں برابر چل رہے تھے، بات فلوریڈا ریاست کے پچیس الیکٹرول ووٹوں پر آکر رک گئی، جو صدارتی امیدوار یہ پچیس ووٹ جیت جاتا، اس کے کل ووٹ 270 کے مطلوبہ ہدف کو عبور کر جاتے۔ پورے فلوریڈا میں بھی مقابلہ برابر جارہا تھا، صرف پام بیچ کاؤنٹی میں، ایگزٹ پولز بتا رہے تھے کہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار الگور ، ری پبلکن پارٹی کے جارج بش سے آگے تھے۔ جارج بش کے والد بھی امریکا کے صدر رہ چکے تھے، اور ان کا چھوٹا بھائی جیب بش اس وقت فلوریڈا ریاست کا گورنر تھا۔عجیب بات یہ ہوئی کہ ایگزٹ پولز کے برعکس، الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں (ای وی ایمز)، جارج بش کو ڈالے گئے ووٹوں کا ٹوٹل زیادہ بتا رہی تھیں۔ سیکرٹری آف سٹیٹ فلوریڈا کیتھرین حارث نے جارج بش کی کامیابی کا اعلان کردیا۔ بات فلوریڈا سپریم کورٹ تک چلی گئی، جس کے حکم پر ووٹوں کو مشینوں سے نکال کر ہاتھوں سے گنا گیا تو الگور کے ووٹ واضح طور پر زیادہ تھے۔ اور فیصلہ الگور کے حق میں آیا، پاپولر ووٹ میں بھی الگور نے پورے امریکا میں جارج بش سے کئی لاکھ ووٹ زیادہ لیے تھے۔ ری پبلکن پارٹی، یہ مقدمہ سپریم کورٹ آف امریکا میں لے گئی، جو امریکا کی سب سے بڑی اپیلیٹ کورٹ ہے۔ ان دنوں امریکی سپریم کورٹ میں قدامت پسند ججز کی تعداد چار کے مقابلہ میں پانچ تھی، سپریم کورٹ نے بش بنام گور مقدمہ میں بڑا دلچسپ فیصلہ دیتے ہوئے ہاتھوں سے ووٹ گننے کو غیر آئینی قرار دے کر قدامت پسند جماعت ری پبلکن پارٹی کے امیدوار جارج بش کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
امریکا میں انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعہ ہوتے ہیں اور گنتی بھی مشینوں کے ذریعہ ہوتی ہے، پولنگ کے اختتام پر، صرف ایک بٹن دبانے سے مشین امیدواروں کے حاصل کردہ ٹوٹل ووٹ بتادیتی ہے۔ یہ ثابت ہوگیا تھا کہ پام بیچ کاؤنٹی میں ووٹنگ مشینز کسی تکنیکی خرابی کی بنا پر غلط ٹوٹل بتا رہی تھیں، جارج بش کو ڈالے گئے ووٹ کم تھے، الگور کے ووٹ زیادہ تھے مگر مشینیں جارج بش کے ووٹوں کا ٹوٹل زیادہ بتا رہی تھیں۔ اس کے باوجود امریکی سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ جب دیگر انچاس ریاستوں میں مشینوں سے کیے گئے ٹوٹل کو ہی مانا گیا ہے تو یہاں بھی مشینوں کے کیے گئے ٹوٹل کو ہی مانا جائے گا۔ امریکی آئین ہر ایک کو یکساں تحفظ کا حق دیتا ہے اور ہر ایک سے ایک جیسے واجب العمل قانونی سلوک کی تلقین کرتا ہے۔ چنانچہ مشینیں کھولنے کے بعد ووٹوں کے بنڈل نکال کر ہاتھوں سے نہیں گنا جانا چاہیے، یہ آئین کی منشاء کے خلاف ہے۔
مگر اس سے زیادہ دلچسپ بات صدارتی الیکشن 2020ء میں ہوئی جب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا،اور ان الیکشنز کو دھاندلی زدہ قرار دیا، پوسٹل بیلٹ کے ذریعہ ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد یا شرح ، پولنگ ڈے کے دن ڈالے گئے ووٹوں سے کہیں زیادہ تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول مقررہ وقت ختم ہونے کے بعد بھی موصول ہونے والے پوسٹل بیلٹ ووٹس کو شمار کیا گیا جس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کو ہار میں بدل دیا۔ اس کے نزدیک ان ووٹوں کو نہیں گنا جانا چاہیے تھا۔ اس مرتبہ بھی سپریم کورٹ میں قدامت پسند ججز کی تعداد زیادہ تھی، کل نو میں سے تین ججز کو تو خود ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عہدہ صدارت میں جج بنایا تھا مگر اس مرتبہ سپریم کورٹ سمیت کسی عدالت نے ری پبلکن پارٹی کے حق میں فیصلہ نہیں دیا، مگر آج کے دن تک، ڈونلڈ ٹرمپ نے الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا۔ ان دو کے علاوہ بھی کئی اہم مثالیں موجود ہیں جب تنازعہ ووٹ گنے جانے کی وجہ سے ہوا۔ کئی بار الیکشن کمیشن آف پاکستان نے دوبارہ ووٹوں کی گنتی کا حکم دیا، اور متعدد بار اعلیٰ عدالتوں بشمول سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر دوبارہ گنتی کرنے یا نہ کرنے کا حکم دیا گیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کو شفاف اور قابل قبول بنانے کے لیے ایسے کیا اقدامات لیے جاسکتے ہیں جس سے عام لوگوں کا الیکشن پر اعتماد بحال ہو ، خصوصاً ووٹوں کی درست گنتی کے حوالہ سے۔ عمران خان ای وی ایمز کے سخت حامی ہیں لیکن اس میں قباحت یہ ہے کہ ان کے علاوہ سب اس کے مخالف ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ مشینوں کے ذریعہ دھاندلی کا امکان مزید بڑھ سکتا ہے، یا ان مشینوں کو ہیک کرکے نتائج بدلے جاسکتے ہیں۔ امریکا میں بھی ہارنے والے یہ ہی الزام لگاتے ہیں کہ مشینوں میں گڑ بڑ کی گئی تھی۔ میری تجویز یہ ہے کہ درمیان کی راہ نکالی جائے، مشینوں کا استعمال یک دم نہیں بلکہ بتدریج مرحلہ وار کیا جانا چاہیے۔ فی الحال مشینوں کا استعمال ووٹر کی شناخت کی حد تک رکھا جائے کہ ووٹر جب ووٹ ڈالنے جائے تو مشینیں جو نادرا کے ڈیٹا سے لنک ہوں اور یہ پتا چل جائے کہ یہ ووٹر ایک جائز ووٹر ہے۔ ووٹ ڈالنے کے لیے بیلٹ پیپر اور بیلٹ باکس ہی استعمال کیے جائیں، اور پرانے طریقہ کار کو بروئے کار لاتے ہوئے امیدواروں کے نامزد پولنگ ایجنٹس کی موجودگی میں ووٹنگ کا عمل جاری رہے۔ اور پولنگ ایجنٹس کی موجودگی میں ہاتھوں کے ساتھ باری باری، ایک ایک ووٹ کو گنا جائے البتہ اس میں اضافہ یہ کیا جانا چاہیے کہ ووٹ گنتی کے وقت سی سی ٹی وی کیمروں سے مدد لی جائے اور گنتی کے پورے عمل کی نگرانی اور ریکارڈنگ کی جائے تاکہ تنازعہ کی صورت میں سی سی ٹی وی وڈیو سے مدد لی جاسکے۔ ان کیمروں کی مدد سے ہی آر ٹی ایس کو بھی مؤثر اور مربوط بنایا جاسکتا ہے تاکہ نتائج کا سرکاری اعلان بھی فوری اور بروقت کیا جاسکے۔ گنتی کے مرحلہ کے ایک سے زیادہ چیکس رکھنے سے شفافیت لائی جاسکتی ہے تاکہ کسی امیدوار یا سیاسی جماعت کے رتی برابر اعتراض کی گنجائش باقی نہ رہے۔ ان اصلاحات سے سیاسی جماعتوں اور عام لوگوں کا انتخابی عمل پر اعتماد بڑھے گا۔ اور یہ ہی جمہوریت کی روح ہے۔
٭…٭…٭