آرمی چیف کے تقرر کی سمری وزیر اعظم ہائوس کو موصول
جی ایچ کیو کی جانب سے چھ سینئر ترین تھری سٹار جنرلز پر مشتمل سمری وزارت دفاع کو بھجوا دی گئی ہے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ یہ سمری چیف آف آرمی سٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے تقرر کے لئے بھجوائی گئی ہے۔ اس حوالے سے ایک نجی ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ سمری وزیر اعظم شہباز شریف کو موصول ہو چکی ہے جس میں پہلا نام لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کا ہے اور دوسرے پانچ لیفٹیننٹ جنرلز میں بالترتیب لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد، لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس، لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر کے نام شامل ہیں۔ اس لسٹ میں سے ہی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا تقرر بھی عمل میں آئے گا۔ وفاقی وزراء خواجہ محمد آصف اور مریم اورنگ زیب نے متذکرہ سمری وزیر اعظم کو موصول ہونے کی خبر کو محض قیاس آرائی قرار دیا اور کہا کہ متعلقہ سمری تاحال وزیر اعظم ہائوس کو موصول نہیں ہوئی اس لئے اس بارے میں قیاس آرائیاں نہ کی جائیں۔ خواجہ آصف کے بقول اگلے 48 گھنٹے میں آرمی چیف کے تقرر کے پراسس پر عمل درآمد ہو جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سول اور ملٹری تعلقات میں کسی قسم کا کوئی تنائو نہیں ہے۔
دریں اثنا پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے صدر اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے گزشتہ روز وزیر اعظم ہائوس میں وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی جس میں اہم تقرری کے حوالے سے مشاورت بھی کی گئی۔ اس سلسلہ میں وزیر اعظم آفس کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری نے وزیر اعظم شہباز شریف کی مزاج پرسی کی جبکہ وزیر اعظم ان کی آمد پر شکریہ ادا کیا۔ اعلامیہ کے مطابق دونوں قائدین کے مابین ملک کی مجموعی صورت حال پر تبادلۂ خیال ہوا، وزیر اعظم شہباز شریف آج بروز جمعرات ترکی کے تین روزہ دورے پر استنبول روانہ ہوں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم روانگی سے قبل اہم تعیناتی کا فیصلہ کریں گے اور پھر ترکی روانہ ہوں گے۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے گزشتہ روز اپنے ٹویٹ میں اس امر کی تصدیق کی کہ آرمی چیف کے تقرر کی سمری وزارت دفاع کو موصول ہو گئی ہے۔ ان کے بقول باقی مراحل بھی انشاء اللہ جلد طے ہو جائیں گے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ چیف آف آرمی سٹاف کے تقرر کا معاملہ خالصتاً آئینی معاملہ ہے اور آئین کی دفعہ 243 شق 3 کے مطاق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، چیف آف آرمی سٹاف، چیف آف نیول سٹاف اور چیف آف ائر سٹاف کے تقرر کے لئے وزیر اعظم صدر مملکت کو سمری بھجواتے ہیں جبکہ اس سلسلہ میں صدر مملکت نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر ہی عمل کرنا ہوتا ہے تاہم ان اعلیٰ فوجی حکام کی تنخواہوں اور الائونسز کا تعین صدر مملکت کرتے ہیں، آئین کے اس آرٹیکل میں اعلیٰ فوجی سربراہوں کو ان کے منصب پر توسیع اور مزید توسیع دینے کا کوئی تذکرہ ہے نہ ان مناصب پر صرف سنیارٹی پر تقرر کی پابندی لگائی گئی ہے۔ گزشتہ ادوار میں آرمی چیف کو ان کے منصب پر توسیع بھی خود وزیر اعظم ہی دیتے رہے تاہم عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ان کے منصب پر مزید توسیع دینے کے معاملہ پر ایک شہری نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کر دی جس کی سماعت اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے وسیع تر بنچ نے کی جس کی سماعت کے دوران یہی معاملہ زیر بحث آیا کہ آئین کی متعلقہ شق میں آرمی چیف یا دوسرے عسکری شعبوں کے سربراہان کو ان کے منصب پر توسیع دینے کا کوئی تذکرہ نہیں۔ اس حوالے سے فاضل عدالت نے قرار دیا کہ آئین کی متعلقہ شق میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ فاضل عدالت نے حکومت کو ہدایت کی کہ وہ پارلیمنٹ سے متعلقہ ترمیم منظور کرائے۔ اس بنیاد پر ضروری قانون سازی کرنے کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کو ان کے منصب پر مزید تین سال کی توسیع دینے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ اس حوالے سے اب بھی آرمی چیف اور دوسرے مناصب پر کسی کو توسیع دینا مقصود ہوگا تو اس کیلئے دوبارہ قانون سازی کرنا پڑے گی کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں کی گئی قانون سازی صرف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ان کے منصب پر مزید توسیع دینے کیلئے کی گئی تھی۔
جہاں تک سنیارٹی کی بنیاد پر آرمی چیف اور دوسرے عسکری شعبوں کے سربراہان کے تقرر کا معاملہ ہے‘ اس کیلئے آئین میں کوئی قدغن نہیں۔ اس لئے بعض سابقہ ادوار میں سنیارٹی کی جانچ پڑتال کے بغیر ہی ان مناصب پر وزیراعظم کی ایڈوائس پر تقرر عمل میں آتا رہا۔ اس حوالے سے جی ایچ کیو کی جانب سے سنیارٹی لسٹ بھجوانے کی بھی کوئی آئینی پابندی نہیں اور وزیراعظم کو اس کے بغیر بھی آرمی چیف اور دوسرے مناصب پر تقرر کی صدرمملکت کو سمری بھجوانے کا اختیار حاصل ہے۔ صدرمملکت آئین کی دفعہ 48 کے تحت دس دن کے اندر اندر اس سمری کی منظوری دیں گے یا اس پر نظرثانی کے لئے سمری واپس وزیر اعظم کو بھجوا دیں گے چنانچہ وزیر اعظم وہی سمری من و عن یا نظرثانی کر کے پندرہ دن کے اندر اندر صدر مملکت کو دوبارہ بھجوائیں گے۔ اگر صدرمملکت اس سمری پر بھی اعتراض لگا کر اس پر دستخط کرنے سے گریز کریں تو پھر صدرمملکت کے دستخطوں کے بغیر بھی وہ سمری منظور شدہ تصور ہوتی ہے اور روبہ عمل ہو جاتی ہے جیسا کہ گورنر پنجاب کے تقرر کے معاملہ میں ہوا تھا۔ اس کے سوا صدرمملکت کو وزیراعظم کے صوابدیدی آئینی اختیار کے تحت بھجوائی کسی سمری کو یکسر مسترد کرنے کا ہرگز اختیار حاصل نہیں۔
سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے صدرمملکت کے اس اختیار کی بنیاد پر ہی آرمی چیف کے تقرر کا معاملہ متنارعہ بنانے کی کوشش کی گئی اور گزشتہ تقریباً آٹھ ماہ سے اس ایشو پر بلیم گیم کی سیاست کرتے ہوئے چائے کے کپ میں طوفان اٹھایا جاتا رہا۔ پہلے تو ان کی جانب سے موجودہ آرمی چیف کو ہی اس منصب پر برقرار رکھنے کیلئے حکومت پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ پھر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو آئی ایس آئی کے منصب پر برقرار رکھوانے اور آرمی چیف کیلئے بھی قرعہ فال ان کے نام کا نکلوانے کیلئے جارحانہ‘ احتجاجی سیاست کا آ غاز کیا گیا‘ تاہم جب عسکری قیادت نے دو ٹوک الفاظ میں یہ عندیہ دیا کہ فوج سول سیاسی معاملات پر قطعاً مداخلت نہیں کرے گی اور مکمل غیر جانبدار رہے گی تو وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش اور کامیاب ہونے کے معاملہ پر غیرملکی سازش کا ایک بیانیہ تیار کر لیا گیا اور عسکری قیادت پر بھی اس سازش میں شریک ہونے کی الزام تراشی شروع کر دی گئی جبکہ عسکری قیادت کے نیوٹرل ہونے کے اعلان کی بھی پی ٹی آئی چیئرمین کی جانب سے بھد اڑائی جانے لگی اور انہیں جانور اور میر جعفر و میر صادق کہہ کر پکارا جانے لگا۔
عمران خان نے اپنی احتجاجی تحریک کے دوران یہ تقاضا بھی کیا کہ ملک میں فوری انتخابات کا انعقاد کیا جائے اور آرمی چیف کا تقرر ان انتخابات کے بعدعمل میں لایا جائے۔ وہ وزیراعظم شہبازشریف کے ہاتھوں نئے آرمی چیف کا تقرر نہ ہونے دینے کے دعوے بھی کرتے رہے جبکہ ان کے یہ تمام تر اعلانات ، الزامات اور دعوے کسی ماورائے آئین اقدام کے متقاضی نظر آتے تھے۔
اس کے برعکس وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے حکومتی اتحادیوں سے مشاورت کے ساتھ لیفٹیننٹ جنرلز کی سنیارٹی لسٹ میں سب سے سینئر افسر کے بطور آرمی چیف تقرر کا اصولی فیصلہ کر کے اس کا عندیہ بھی دے دیا، جس کے بعد آرمی چیف کے تقرر کو کسی بھی حوالے سے متنازعہ بنانے اور سیاسی خلفشار بڑھانے کی قطعاً گنجائش نہیں نکل سکتی تھی مگر عمران خان نے اپنی بلیم گیم کی سیاست جاری رکھی اور اب وہ موجودہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے پہلے -26 نومبر کو اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اگرچہ وزیراعظم سنیارٹی کے بغیر بھی کسی لیفٹیننٹ جنرل کے بطور آرمی چیف تقرر کی ایڈوائس صدر مملکت کو بھجوانے کے مجاز ہیں پھر بھی انہوں نے سنیارٹی لسٹ پر صاد کرنے اور سب سے سینئر افسر کا بطور آرمی چیف تقرر عمل میں لانے کا فیصلہ کیا جو درحقیقت عمران خان کے پیدا کردہ سیاسی خلفشار کے آگے بند باندھنے کا صائب اقدام تھا۔ اب جبکہ وزیر اعظم کو جی ایچ کیو کی بھجوائی سنیارٹی لسٹ موصول بھی ہو چکی ہے جس میں سنیارٹی کے حساب سے شامل کئے گئے چھ نام بھی منظرعام پر آ چکے ہیں تو پی ٹی آئی اور اس کے قائد عمران خان کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ آرمی چیف کے تقرر کے معاملہ میں غیر آئینی تقاضوں کا سلسلہ ترک کر دیں اور فوج کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اپنی احتجاجی سیاست کی بساط لپیٹ لیں۔ انہیں مستقبل کی قومی سیاست میں اپنا مقام بنانا ہے ہے تو انہیں انتشاری اور تخریبی سیاست سے بہرحال خود کو الگ کرنا ہو گا بصورت دیگر انہیں اب عوام کی جانب سے بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔