نقشِ وفا
کچھ عرصہ قبل ٹی وی پر ڈرامہ سیریل چلا اور بہت مقبول ہوا، نام تھا ''پری ذاد'' ایک غریب، مجبور لیکن انتہائی فرشتہ صفت انسان کی کایا پلٹتی ہے اور وہ بہت امیر اور طاقتوربن جاتا ہے لیکن کچھ عرصے بعد ہی وہ تمام مال و دولت اور جاہ و جلال ٹھکرا کر دوبارہ گمنامی اور غربت کی زندگی اختیار کر لیتا ہے۔ ڈرامہ کی آخری قسط میں ایک کردار اس سے پوچھتا ہے ''تم نے یہ سب کچھ کیوں چھوڑا؟'' مجھے کہانی لکھنے والے کا یہ جملہ بہت پسند آیا۔ پری ذاد جواب دیتا ہے ''یہ بے پناہ دولت اور طاقت میرے اندر کا اچھاانسان ختم کر رہی تھی۔''
انسان پیدائش کے وقت فرشتوں کی طرح پاک صاف اور برائیوں سے دور ہوتا ہے، چاہے وہ بادشاہ کے گھر میں پیدا ہو یا کسی جھونپڑی میں۔ حالات و تربیت اس کو اچھا اور برا انسان بنا دیتے ہیں۔ میرے ایک دوست بتا تے ہیں ان کے دادا جو عالم دین، صحافی اور مُصَنِّف تھے انہوں نے دعا مانگی کہ اے اللہ میری اولاد اور آل اولاد کو امیری اور فقر دونوں سے بچانا۔ اس دعا میں بڑی گہرائی ہے۔ میں نے پولیس سروس میں اس کا عملی تجربہ خوب کیا۔ انسان غربت کے ہاتھوں وہ غلط کام کر بیٹھتا ہے جس کا اس نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہو اور امیری تو ہے اللہ کی طرف سے آزمائش۔ ایک صاحب کو اللہ نے بہت دیا اور وہ امیر ہوگئے۔ بچی کی شادی کی عمر ہوئی تو کچھ پریشان دیکھائی دئیے۔ پوچھنے پر کہنے لگے کہ غریب عزیز واقارب رشتہ دیتے ہوئے ہچکچا رہے ہیں اور امیروں میں اپنی بچی کی شادی نہیں کرنا چاہتا۔ انہوں نے کہا کہ اب میں امیروں میں اٹھتا بیٹھتا ہوں مجھے معلوم ہے کہ ان میں کتنی برائیاں ہیں۔
میں پولیس سروس میں آنا نہیں چاہتا تھا۔ فلسفہ پڑھنے اور پڑھانے میں مگن تھا۔ فلسفہ جہان کی گمشدہ گتھیاں سلجھانے کا نام ہے۔ سوچ و بچار اور پھر مزید سوچ و بچار۔ پولیس میں آیا تو معلوم ہوا کہ عملی زندگی کس چڑیا کا نام ہے۔ اگر آپ کوئی اچھا کام، مظلوم کی مدد اور ظالم کا ہاتھ روکنا چاہتے ہیں تو اس سے بہتر پیشہ نہیں بشرطیکہ آپ کے اندر ایک اچھا انسان موجود ہے۔ اور اگر خدانخواستہ آپ کے اندر کوئی مجرم، کینہ یا دولت کی ہوس بھری ہوئی ہے تو بھی اس آتش شوق کو خوب ہوا ملتی ہے۔ لیکن خیال رہے کہ آپ کے اردگرد والوں کو سب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ اوپر والا تو دیکھ ہی رہا ہوتا ہے اور اس کی پکڑ جلد یا دیر آہی جاتی ہے۔
میری شروع سروس میں صوبہ بلوچستان میں تعیناتی ہوگئی۔ بھائی لوگ سمجھے کہ کھڈے لائن لگ گیا۔ کچھ نے تو فون سننا بھی بند کر دئیے۔ لیکن جو تہذیب و اخلاق اور خاندانی اقدار میں نے بلوچستان کے لوگوں میں دیکھیں کہیں اور نہ پائیں۔گورنر ہو یا چیف منسٹر یا پھر عام آدمی، ہمیشہ آپ سے دونوں ہاتھوں سے اور گرم جوشی سے مصافحہ کریں گے۔ بڑے سے بڑے سرکاری افسر کے دفتر چلے جائیں، سب کے دروازے عام آدمی کے لیے کھلے پائیں گے۔ عجیب بات ہے یہی افسران جب دوسرے صوبوں میں جاتے ہیں تو وہی سرخ فیتے کا انداز اپنا لیتے ہیں اور کسی بھی سائل کو اپنے دروازے کے پاس پھٹکنے بھی نہیں دیتے۔ بلوچستان کے جن لوگوں سے میری دوستی ہوئی، آج 35 سال گزرنے کے باوجود ان سے خوب رابطہ ہے۔
بلوچستان میں ایک بد نام زمانہ ڈاکو بچوں کے اغوا برائے تاوان میں ملوث تھا۔ اسوقت اخترمنگل وزیر اعلی تھے ایک خطیر رقم مانگی جو مخبر کو ادا کرنی تھی کہ اس ڈاکو پر ہاتھ ڈالا جاسکے۔ ان کو ہم پر اتنا اعتماد تھا کہ رقم فوراً مہیا کر دی گئی۔ وہ ڈاکو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ کچھ عرصے بعد اس کا والد مجھے دفتر میں ملنے آیا۔ میں سمجھا شاید دشمنی میں آیا ہے۔ وہ ایک بزرگ تھے اور انکو اس بات کا احساس تھاکہ اس کا بیٹا غلط کاموں میں ملوث تھا اور اسی وجہ سے اپنے انجام کو پہنچا۔ بہرحال تھا باپ ڈاکو کی ماں کے کہنے پر ڈاکو کے کپڑے اور دیگر اشیاء کی درخواست کرنے آیا تھا۔ ڈاکو کی ایک ڈائری بھی تھی جس میں رقم کے لین دین کا اندراج تھا۔ ہم نے اس کی چیزیں اس کو دے دیں اور وہ خوشی خوشی چلا گیا۔
سیاستدانوں کے بارے میں عام تاثر ہے کہ ان کے وعدے وفا نہیں ہوتے۔ میرا تجربہ اس کے برعکس رہا اور خاص طور پر بلوچستان میں۔ جب بھی شہیدوں کے ورثا کے لیئے کسی پیکیج کی بات کی، نفی میں جواب نہ ملا۔ سوال یہ ہے کہ آپ کیا مانگ رہے ہیں۔ اگر آپ کو اپنی ذات یا صرف افسران کی ویلفیئر مقصود ہے تو شاید آپ کو مایوسی ہو۔ لیکن اگر مسئلہ عام عوام کا ہے یا پولیس کے نچلے درجے کے ملازمین کا تو ہمارے سیاستدان بھی دو قدم آگے بڑھ کر مدد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
کراچی میں میرے ایک دوست ہیں۔ ماشاء اللہ خوب فہم و فراست کی گفتگو کرتے ہیں لیکن اگر کبھی ان کو کسی کام کا کہا جائے تو مجال ہے کہ ٹس سے مس ہو جائیں۔ دوسری طرف ایک ایسے بھی صاحب ہیں جن کو اگر ہم رات دو بجے بھی فون کریں اور کسی کام کی درخواست کریں تو وہ بستر چھوڑ چھاڑ کر یہ جا اور وہ جا اور صبح سویرے کام مکمل ہونے کی رپورٹ دیں گے۔
کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم علامہ اقبال کے وہ جگنو بن جائیں جو ٹہنی پر کسی شجر کی طرح اداس بیٹھے ہوئے بلبل کو اندھیری رات میں روشنی کر کے راستہ دکھائے؟
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے