بدھ ‘ 18 ربیع الثانی 1443ھ24نومبر2021ء
بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو تیسرا بڑا عسکری ایوارڈ ویرچکرا مل گیا
مولانا ابوالکلام آزاد اپنے والد کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ وہ اپنے مخالفین کے لیے ایک شعر کہا کرتے تھے جو معمولی ترمیم کے ساتھ عرض ہے۔
’’بھارتی‘‘ بے حیا جھوٹے ہیں یارو
تراتڑ جوتیاں تم ان کو مارو
سو یہی شعر ہم ابھی نندن اور بھارتی حکومت کی نذر کرتے ہیں۔ اتنا جھوٹ‘ اتنا فریب‘ اتنا دھوکہ کوئی اپنے عوام اور عالمی برادری کو کیسے دے سکتا ہے۔ امریکہ تک نے رپورٹ دی ہے کہ بالاکوٹ آپریشن کے بعد اس کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کرکے ایف سولہ طیاروں کی گنتی کی اور تعداد کو پورا پایا جس کا مطلب ہے کہ کوئی طیارہ تباہ نہیں ہوا یعنی کم نہیں تھا۔ بھارت … کا جھوٹ بول رہا ہے۔ خود ابھی نندن بھی کہہ رہا تھا کہ وہ ابھی ہدف کی تلاش میں تھا کہ خود شکار ہو گیا۔ اس کے برعکس بھارت نے پاکستانی شاہینوں کے ہاتھوں اپنے دو طیاروں کی تباہی اور ایک پائلٹ ابھی نندن کے زندہ گرفتاری کی ذلت سے نظریں چراتے ہوئے اپنے گیدڑ کو شیر بنا کر دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اسے تو جبری ریٹائر کرنا تھا مگر ہندو توا کو مضبوط کرنے اور پاکستان دشمنی کو توانا رکھنے کیلئے اس ہارے ہوئے سپاہی کو ’’ویر چکرا‘‘ کا تیسرا بڑا فوجی اعزاز دیا گیا جس سے بھارت میں ویرچکرا پانے والے فوجی تو تڑپ رہے ہونگے کہ جو اعزاز ہم نے اتنی محنت سے پایا‘ وہ اس ہارے ہوئے بزدل سپاہی کو طیارہ تباہ ہونے اور گرفتار ہونے کی ذلت کے باوجود کس خوشی میں دیا جا رہا ہے مگر بھارتی حکومت کو عالمی سطح پر ہونے والی جگ ہنسائی کے باوجود شرم نہیں آرہی۔
٭٭……٭٭
امریکی صدر جو بائیڈن کا 2024ء کے الیکشن لڑنے کا عندیہ
سوچنے یا خواب دیکھنے کی اجازت سب کو ہے اس پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتا۔ امریکی صدر ہونا ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ دنیا کی سپر طاقت کو چلانے اس پر حکمرانی کرنے کا خواب سب دیکھتے ہیں۔ اس بارے میں سوچنے سے ہی نشہ طاری ہوتا ہے کہ واشنگٹن ڈی سی کا وائٹ ہائوس آپ کے قدموں تلے فرش راہ ہوگا۔ اور آپ
میں ہوں ’’وائٹ ہائوس کی بانہوں‘‘
میرے قدموں تلے زمانہ ہے
یہاں آنے والے کے تو مزاج ہی بدل جاتے ہیں۔ اس لئے اب جو بائیڈن صاحب نے بھی اپنی عمر سے صرف نظر کرتے ہوئے 2024ء کے الیکشن کا میدان خالی چھوڑنے کی بجائے اس میں شرکت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکیوں کی اکثریت کو بھی اس بارے میں تعجب ہوا ہوگا کیونکہ صدر محترم عمر کے اس حصے میں ہیں کہ اب تو انہیں پل کا بھی بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔ کیا معلوم کب سانس آئے یا نہ آئے۔ مگر ان کو شاید ’’سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں‘‘ والی بات معلوم نہیں یا وہ اسے یاد کرنا ہی نہیں چاہتے۔ بہرحال امریکی جانیں اور ان کے صدر جنہیں اندازہ تو ضرورہے کہ صدر کی عمریا بیتی جا رہی ہے۔ عمر کا آخری حصہ چل رہا ہے مگر وہ بضد ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔ وہ رہے تو الیکشن لڑیں گے‘ ورنہ الیکشن تو ان کے بغیر بھی ہونگے۔ بس کہیں کسی اچانک انہونی کی وجہ سے امریکہ میں مڈٹرم صدارتی الیکشن نہ کرانا پڑیں۔
٭٭……٭٭
سٹیج اداکارہ دعا چودھری کا خواتین کے ہمراہ تھانے پر دھاوا‘ 2 ساتھی چھڑا لئے
اب معلوم نہیں دعا میں زیادہ طاقت تھی یا اس کے ماننے والوں میں کہ یہ کچھ ہو گیا۔ ورنہ پکڑے گئے ساتھی تھانے سے چھڑانا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ بڑے دل گردے والی بات ہے۔ پولیس والے بھی آخر دل والے ہوتے ہیں۔ وہ بھی دعا کی تاثیر سے ڈرتے ہیں کہ کہیں دعا کی قبولیت ان کیلئے مسائل نہ کھڑے کر دے۔ سو انہوں نے بھی آئیں بائیں شائیں کرتے ہوئے معمولی سی مزاحمت دکھائی اور دعا اپنے دونوں پکڑے گئے ساتھیوں کو حوالات سے چھڑا کر ساتھ لے گئی۔ اس پر ایک پنجابی فلم کا سین یاد آرہا ہے جس میں ایک پولیس افسر طوائف کے بالا خانے پر چھاپہ مارتا ہے اور وہاں موجود مجرم کو پکڑ کر لے جانے کی کوشش کرتا ہے تو طوائف مزاحمت کرتی ہے اور کہتی ہے (ترجمہ) ڈپٹی تم جب تک اسے لیکر تھانے پہنچو گے‘ اس وقت تک اوپر سے اس کو باعزت چھوڑے کا حکم آچکا ہوگا اور یہی ہوتا ہے۔ یہ ہوتی ہے طاقت‘ اسے کہتے ہیں طاقت کا نشہ۔ پولیس کے بقول انہوں نے سالگرہ کی تقریب میں شور شرابے کی اطلاع پر چھاپہ مارا تو دعا چودھری اور اس کے9 ساتھیوں نے حملہ کرکے پولیس والوں کو زدوکوب کیا‘ ان کی وردی پھاڑی۔ اس پر دعا چودھری اور اس کے ساتھیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا مگر نتیجہ دیکھ لیں جو 2 ملزم پولیس پکڑ کر لائی تھی‘ وہ بھی تھانے پر دھاوا بول کر چھڑا لے گئی۔ اب تھانے والے شاید اڑتی چڑیا کے پر گن رہے ہونگے۔
٭٭……٭٭
کوئٹہ میں لوگ مہنگائی کے ہاتھوں خودسوزی کرنے والے کی سیلفیاں بناتے رہے
یہ عجب بے حسی ہے کوئی جان سے جا رہا ہوتا ہے‘ اسے بچانے کی بجائے لوگ اس مرتے ہوئے انسان کی سیلفیاں بنا رہے ہوتے ہیں۔ اس سے ان کو نجانے کون سی مسرت ملتی ہے یا وہ یہ سب کچھ دنیا کو دکھانے کیلئے اپنے اس جذبے کی تسکین کیلئے ایسا کرتے ہیں حالانکہ یورپ میں کسی مرتے ہوئے شخص کی جان بچانے میں مدد نہ کرنا بھی جرم ہے۔ اس کی سزا بھی مقرر ہے مگر افسوس ہمارے ہاں سرعام خودسوزی کرکے اپنی جان لینے والے کو بچانے‘ اسے بروقت ہسپتال پہنچانے کی بجائے زخمی حالت میں جان کنی کی کیفیت میں اس کی ویڈیو بنانے پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ انسان اتنا بے حس ہو چکا ہے کہ اب وہ حیوانیت کی سطح سے بھی نیچے گر چکا ہے۔ کسی مرتے انسان کی جان نہ بچانا جرم ہے‘ پاکستان میں بھی ایسا قانون لاگو کرنا ہوگا تاکہ مرتے افراد کی سیلفی بنانے کی بجائے ان کی مدد کیلئے لوگ آگے بڑھیں۔ یہ بے حسی معاشرے کو تباہی کے اندھے کنویں میں دھکیل رہی ہے۔ اس سے باہر نکلنا ہوگا۔ جس معاشرے میںانسانیت ختم ہوتی ہے‘ وہاں وحشت و بربریت جنم لیتی ہے۔ اس لئے کہتے ہیں’’درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو‘‘جو اس نعمت سے محروم ہوتا ہے‘ وہ انسان کہلانے کا حقدار نہیں ہوتا۔ ہمیں اپنے اندر کے انسان کو مرنے نہیں دینا چاہئے۔