تو عورت ہے تو یاد رکھ
تو رحمت ہے۔تو راحت ہے
تو جنت بھی ہے مگر تجھ کو
فرض اپنے نبھا نے ہیں
ذمہ داریاں ہیں تیری بڑی
تجھے رکھنا ہے خود کو سنبھال کہ
کبھی خود کو دنیا سے بچا کہ بھی
کبھی حق کی خاطر چلا کے بھی.
کبھی جھک کے سر کو جھکا کے بھی
کبھی اٹھ کے نظریں اٹھا کے بھی
نہ بھولنا تم اپنی حدود کو
تو عورت ہے۔۔تو پردہ ہے
تو دلنشیں اک زیور ہے
تیرا نام آتا ہے وفاؤں میں
جچتی نہیں بے وفائی پھر
سو آسرے ہیں تیرے نام پہ
نہ ہو مایوس تو امید ہے
سو گھر ہیں تجھ سے آباد پر
لب و لہجہ اپنا سنبھال تو
تو خوبصورت اک باغ ہے
تو کلی بھی ہے تو گلاب ہے
تیرا کردار ہے چمن یہاں
تیری صورت تو اک خواب ہے
تو عورت ہے تو یاد رکھ
تو مرد سے ہے عیاں یہاں
ورنہ تو ہے اک خاک تر
گر مرد سے ہے جدا یہاں