کرونا کے وار اور ملتان پر سیاسی یلغار
یہ خبریں تشویشناک ہیں کہ ملتان کرونا کیسز کی شرح کے لحاظ سے پاکستان میں پہلے نمبر پر آگیا ہے روزانہ پانچ چھ اموات کا سلسلہ جاری ہے اور کیسز کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے اس صورتحال نے عوام کو خوف و ہراس میں مبتلا کر رکھا ہے مگر ہمارے سیاسی قیادت اس بات سے بے پرواہ ہو کر اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے جلسوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اب 30 نومبر کو ملتان میں پی ٹی ایم کا جلسہ ہونا ہے کرونا کے بڑھتے ہوئے وار دیکھتے ہوئے یہ خوف آتا ہے کہ جب ہزاروں لوگ مختلف علاقوں سے قلعہ کہنہ قاسم باغ پہنچیں گے تو کیا یہ وبائی مرض مزید شدت اختیار نہیں کر جائے گا کیا یہ ضد کوئی اچھی بات ہے کہ ہر صورت شیڈول کے مطابق جلسے کرنے ہیں چاہے کرونا پھیلتا ہے اور لوگ مرتے ہیں تو مرتے رہیں وزیراعظم عمران خان کے نے تو واضح کر دیا ہے کہ اگر کرو نا کیسز اسی طرح بڑھتے رہے تم نے مجبورا پھر ملک میں لاک ڈاؤن کرنا پڑے گا یاد رہے کہ اس سے پہلے وزیراعظم کئی بار کہہ چکے ہیں کہ دوبارہ ملک کی لاک ڈاؤن لوڈکرنا معیشت کے لئے جان لیوا ثابت ہو گا مگر صورت حال کچھ ایسی پیدا ہو رہی ہے کے شاید حکومت بڑھتے ہوئے کرونا کیسوں کی وجہ سے دوبارہ لاک لگانے پر مجبور ہو جائے اس کی ذمہ داری کون اٹھائے گا اور معاشی حالات مزید دگرگوں ہوئے تو اپوزیشن کیسے حکومت کو الزام دے سکے گی کہ اس کی بری پالیسیوں کی وجہ سے معیشت کا برا حال ہوا ہے۔
اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جو ایک ڈیڈ لاک کی فضا ہے وہ کسی بھی طرح قومی مفاد میں نہیں خاص طور پر ان حالات میں کہ جب دنیا بھر میں کرونا کی وجہ سے دوبارہ پابندیاں لگائی جارہی ہیں بازار اور مارکیٹیں بند ہو رہی ہیں اور اموات کی شرح بھی کئی گنا بڑھ چکی ہے تو ہم یہ کھیل کیوں کھیل رہے ہیں کہ جس میں لوگوں کی قیمتی جانوں کا زیاں ہو سکتا ہے اب یہ صورت حال اس حد تک چلی گئی ہے کہ اپوزیشن اپنے جلسوں کے لییاجازت تک لینے کی روادار نہیں رہی اور علی الاعلان یہ کہہ رہی ہے کہ احتجاج کرنا اس کا حق ہے اس لیے کسی جنت کی ضرورت نہیں پشاور کا جلسہ بھی اسی طرح پابندی توڑ کر کیا گیا اور ملتان کا جلسہ بھی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر کیا جا رہا ہے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی تین سو سے زائد افراد کے اجتماع پر این سی او سی کے فیصلے کے مطابق پابندی لگا دی ہے گویا حکومت عدلیہ دونوں نے موجودہ حالات میں جلسے جلوسوں کو ممنوع قرار دیا ہے مگر پی ٹی ایم اسے ماننے کو تیار نہیں ہے اور وہ حکومت کے خلاف تحریک کو جاری رکھنے پر بضد ہے بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمن جنوری تک حکومت کو ہر حال میں گھر بھیجنا چاہتے ہیں کیا یہ دیوانگی ان حالات میں کہ جب ایک وبا ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے ہمیں زیب دیتی ہے کیا مناسب نہیں ہوگا کہ کرونا کی وجہ سے جو حالات پیدا ہو چکے ہیں ان کے باعث اپوزیشن احتجاج کا کوئی اور راستہ اختیار کرے اجتماعات سے گریز کر کے پارلیمنٹ کے اندر اور پریس کانفرنسوں اور نیز اسی طرح کے دیگر طریقے اختیار کرکے اپوزیشن اپنی تحریک کو جاری رکھ سکتی ہے مگر موجودہ حالات میں کہ جب اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ایک واضح خلیج حائل ہے لگتا نہیں کہ اپوزیشن اپنے احتجاج کو مؤخر کرے گی یہ صورت حال کہ جس پر سوائے غم و غصے کہ ہم پاکستانی کچھ کر نہیں سکتا البتہ سپریم کورٹ وہ ادارہ ہے جو اس ساری صورتحال پر سوموٹو ایکشن لے سکتا ہے بالکل اسی طرح جیسے کرونا کے ابتدائی دنوں میں سپریم کورٹ نے حکومت سے اسے کنٹرول کرنے کے لیے بنائی گئی حکمت عملی کی تفصیلات طلب کی تھی جب تک کوئی موثر ادارہ اس کا نوٹس نہیں لیتا اس وقت تک یہ خطرہ منڈلاتا رہے گا کہ کرونا ایک بڑی آفت کے طور پر ہمیں بحیثیت مجموعی ایسا نقصان پہنچائے کہ جس کی بعد ازاں تلافی نہ ہو سکے تحریک تو پھر بھی چل سکتی ہیں لیکن ہماری بے تدبیری سے لوگوں کی جان جاتی ہیں تو ان کی تلافی نہیں ہوسکے گی ان حالات میں حکومت اور اپوزیشن کی قیادت سے اپیل ہی کی جاسکتی ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لے اور لوگوں کی جانوں سے کھیلنے کی بجائے انہیں محفوظ رکھنے میں اپنا کردار ادا کرے جہاں تک ملتان میں کرونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کا تعلق ہے تو یہاں کی انتظامیہ اور محکمہ صحت کو زیادہ فعالیت کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنا چاہیے دیکھا یہ گیا ہے کہ انتظامیہ اور محکمہ صحت میں کوآرڈینیشن موجود نہیں جس کی وجہ سے یہ اندازہ نہیں ہو پا رہا کہ کس جگہ کرونا کے زیادہ کیسز آرہے ہیں اور ان کی وجوہات کیا ہیں مربوط کوششوں کے بغیر کرونا کی وبا پر قابو نہیں پایا جا سکتا انتظامیہ کو ایس او پیز پر عمل کرانے کے لیے سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے خاص طور پر ماسک پہننے کی پابندی کو یقینی بنایا جانا وقت کی اشد ضرورت ہے۔