کاشتکار کی آوز
ہمارا ملک ترقی پذیر ممالک میں شمار کیا جاتا ہے جس کا انحصار زراعت پر ہے، زرعی پیداوار اور زراعت سے منسلک اشیاء کی صنعتیں ملک معیشت کے پہیے کو رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔ کپاس ہماری زراعت کی کلیدی پیداوار اور ملک کی شان ہے، کپاس کو ’’وائٹ گولڈ‘‘ یا ’’سفید سونا‘‘ کہا جاتا ہے اور کپاس پیدا کرنے والی زمین کو دنیا میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اب اصولی طور پر تو کپاس پیدا کرنے والا کاشتکار بھی قدردانی کا حقدار ہے کہ وہ ملک کو زرمبادلہ کما کر دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ وہ کاشتکار غذائی اجناس بھی کاشت کر رہا ہے جس میں سب سے اہم گندم کی فصل ہے کہ جس کی بدولت ہم روزانہ روٹی کھاتے ہیں۔ ملکی معیشت کا پہیہ چلانے میں اہم ترین کردار ادا کرنے والا کاشتکار اور غذائی ضروریات کو پورا کرنے والا کسان، شوگر ملوں کے لئے گناکاشت کرنے والا دہقان آج کن مسائل کا شکار ہے، اس بات کا اندازہ نہ تو شہروں میں بیٹھ کر پرآسائش زندگی گزارنے والے افراد کر سکتے ہیں اور نہ ہی ایوانوں میں بیٹھے ہوئے سربراہان اور سیاست دان۔ حالانکہ کاشتکاروں کے مسائل کسی ایک سیاسی پارٹی سے جڑے ہوئے نہیں ہیںبلکہ یہ اقتدار کی سیاسی پارٹیوں اور اپوزیشن پارٹیوں تمام کے مشترک مسائل ہیں اور تمام تر سیاسی پارٹیوں کے سربراہان کسی نہ کسی طور کاشتکاری سے منسلک ہیں۔ایسی صورت حال کے باوجود یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ کاشتکار ہی مسائل اور استحصال کا شکار کیوں ہے؟ ایسی کیا مجبوری بن پڑتی ہے کہ کاشتکار اپنی مصروفیات ترک کر کے احتجاج کے لئے مجبور ہو جاتا ہے اور وہ احتجاج کرتے کرتے لاہور اور اسلام آباد تک جانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ کیا کاشتکار کی زندگی اور اس کا کام اتنا اہم بھی نہیں سمجھا جا رہا کہ اسے یہ استحقاق حاصل ہو کہ اس کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے اور وہ احتجاج پر مجبور نہ ہو، ایوان اقتدار میں بیٹھنے والے اکثر جاگیردار، سردار، وڈیرے ہی ہوتے ہیں اور وہ انہی کاشتکاروں سے ووٹ حاصل کر کے ہی اقتدار کی منزل تک پہنچتے ہیں۔ کیا وہ بھی یہاں پہنچ کر ان غریب کسانوں، ہاریوں اور خون پسینے کی محنت سے فصلیں کاشت کرنے والے محنت کشوں کے بنیادی مسائل سے غفلت برتنے لگتے ہیں۔
جہاں تک تعلق ہے کاشتکاروں کے مسائل کا تو وہ کوئی اقتدار میں سے حصہ نہیں مانگ رہے، سرخاب کے پر کی آرزو نہیں کر رہے، ان کے مسائل تو بہت سادہ سے، سیدھے سادھے اور آسان ہیں۔ وہ تو فصلوں کی کاشت کے دوران اور فصلوں کی نگہداشت کے دوران ہونے والے اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے گندم، کپاس، گنے اور دیگر فصلوں کے ریٹ بڑھانے کا تقاضا کرتے ہیں، کھاد اور بیج پر سبسڈی مانگتے ہیں، جعلی ادویات پر کنٹرول کی بات کرتے ہیں۔ ٹریکٹر اور دیگر زرعی مشینری کے مناسب ریٹ اور آسان قرضوں کی سہولت مانگتے ہیں۔ گنا کاشت کرنے کے بعد جب اس گنے کو ٹرالیوں اور ٹرکوں میں کسان شوگر ملوں میں لے کر جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جو برتاؤ کیا جاتا ہے، اس پر احتجاج کرتا ہے، فصل پر کاٹ لگائی جاتی ہے، ریٹ ایسا دیا جارہا ہے جو فصل پر ہونے والے اخراجات کو ہی پورا کر سکتا ہے، شوگر ملوں والے کھربوں پتی لوگ کاشتکاروں کو فصل کی ادائیگی انتظار کروا کروا کر دیتے ہیں۔یہ مسائل ایسے نہیں ہیں کہ ان کے حل کے لئے کسانوں کو احتجاج کرنا پڑے۔ کیا یہ صاحبان اقتدار کی ذمہ داری نہیں ہے، کیا ہمارا ملک زراعت پر انحصار نہیں کرتا، کیا زرعی پالیسی ہماری اوّلین ترجیح نہیں ہونی چاہییٓ کیا کاشتکار یاد دلائیں گے تو ان امور پر غور کیا جائے گا۔ اگر ایک زرعی ملک میں کاشتکار کو ہی عزت نہیں دی جائے گی تو کسے دی جائے گی۔اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ اسی زرعی ملک میں کاشتکاروں کے حقوق کے لئے احتجاج کرنے والے کسانوں پر تشدد کیا جاتا ہے، واٹر کینن سے پانی پھینکا جاتا ہے، لاٹھی چارج کیا جاتا ہے، گرفتار کیا جاتا ہے اور اس وقت حد ہو جاتی ہے جب احتجاج کرنے والے کاشتکاروں پر تشدد کے دوران لاہور پولیس کے تشدد کے باعث بورے والا سے تعلق رکھنے والے ایک کاشتکار انور لنگڑیال جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ یہ بات افسوس ناک ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے۔کاشتکار کیوں کر مجبور ہوا کہ وہ احتجاج کرنے کے لئے لاہور کا رُخ کرے، ان لوگوں سے بروقت مذاکرات کر کے مسئلے کا حل کیوں نہ نکالا گیا، ان پر تشدد کرنے کا حکم کس نے دیا۔ اس مسئلے کے بارے میں اعلیٰ سطحی تحقیقات کا وعدہ کر کے تحقیقات کا نتیجہ کیا برآمد ہوا۔ الیکٹرانک میڈیا پر چلنے والے ٹاک شوز میں ان تمام امور پر کتنے پروگرام کئے گئے۔ کیا ایک زرعی ملک میں زراعت سے متعلقہ امور اتنے اہم بھی نہیں کہ ان پر ٹی وی چینلز کوئی پروگرام کریں۔ کیا ریٹنگ سیاست دانوں کے آپس میں طنزیہ جملوں سے ہی حاصل کی جاتی ہے۔ کیا ریٹنگ زراعت سے بھی اہم چیز ہے۔ کیا بورے والا کے لنگڑیال کا خون ہمیں کوئی پیغام نہیں دے رہا کہ اس زرعی ملک میں حلال رزق کھانے اور کمانے والے کسان کو ایوانوں تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے اقتدار کے شہروں میں احتجاج کرنا پڑتا ہے، لاٹھیاں کھانی پڑتی ہیں، گرفتاریاں دینی پڑتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جان بھی دینی پڑتی ہے۔ کیا ہم زرعی ملک کہلوانے کے روادار ہیں۔