غوث الاعظم۔سیدعبدالقادر جیلانی
سرکارِبغدارحضورِغوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کااسم مبارک’’عبدالقادر‘‘آپ کی کنیت ’’ابومحمد‘‘اورالقابات ’’محی الدین،محبوبِ سبحانی،غوثُ الثقلین، غوثُ الاعظم‘‘ وغیرہ ہیں، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ۴۷۰ھ میںبغدادشریف کے قریب قصبہ جیلان میںپیدا ہوئے اور ۵۶۱ھ میںبغدادشریف ہی میںوصال فرمایا، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مزارِپراَنوارعراق کے مشہورشہربغدادشریف میںہے۔ غوث کسے کہتے ہیں:۔ ’’غوثیت‘‘ بزرگی کاایک خاص درجہ ہے، لفظ’’غوث‘‘کے لغوی معنی ہیں ’’فریادرس یعنی فریادکوپہنچنے والا‘‘، چونکہ حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ غریبوں، بے کسوںاورحاجت مندوںکے مددگارہیں اسی لئے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ’’غوث ِاعظم‘‘کے خطاب سے سرفراز کیا گیا اوربعض عقیدت مند آپ کو ’’پیران پیردستگیر‘‘ کے لقب سے بھی یادکرتے ہیں۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا نسب شریف:۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ والدماجدکی نسبت سے حسنی ہیں، سلسلۂ نسب یوں ہے: سیّد محی الدین ابومحمدعبدالقادربن سیّد ابو صالح موسیٰ جنگی دوست بن سیّدابوعبداللہ بن سیّد یحییٰ بن سیدمحمدبن سیّددائودبن سیّدموسیٰ ثانی بن سیّدعبداللہ بن سیّدموسیٰ جون بن سیّد عبداللہ محض بن سیّدامام حسن مثنیٰ بن سیّدامام حسن بن سیّدناعلی المرتضیرضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی والدہ ماجدہ کی نسبت سے حسینی سیّدہیں۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے آباء واجداد:۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا خاندان صالحین کاگھرانا تھا، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ناناجان، داداجان، والدماجد، والدہ محترمہ، پھوپھی جان، بھائی اورصاحبزادگان سب متقی وپرہیزگارتھے، اسی وجہ سے لوگ آپ کے خاندان کواشراف کا خاندان کہتے تھے۔
سیدوعالی نسب دراولیاء است
نورِچشم مصطفیٰ ومرتضیٰ است
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدمحترم:۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدمحترم حضرت ابوصالح سیّدموسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تھے، آپ کا اسم گرامی ’’سیّدموسیٰ‘‘کنیت ’’ابوصالح‘‘اورلقب ’’جنگی دوست‘‘ تھا،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جیلان شریف کے اکابر مشائخ کرام رحمہم اللہ میں سے تھے۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہکالقب جنگی دوست اسلئے ہواکہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خالصتاً اللہ عزوجل کی رضاکیلئے نفس کشی اورریاضت شرعی میںیکتائے زمانہ تھے، نیکی کے کاموں کا حکم کرنے اوربرائی سے روکنے کیلئے مشہورتھے، اس معاملہ میں اپنی جان تک کی بھی پروا نہ کرتے تھے،چنانچہ ایک دن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جامع مسجدکوجارہے تھے کہ خلیفہ وقت کے چندملازم شراب کے مٹکے نہایت ہی احتیاط سے سروں پراٹھائے جارہے تھے،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جب ان کی طرف دیکھاتوجلال میںآگئے اوران مٹکوں کوتوڑ دیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے رعب اوربزرگی کے سامنے کسی ملازم کودم مارنے کی جرأت نہ ہوئی تو انہوں نے خلیفۂ وقت کے سامنے واقعہ کااظہار کیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کیخلاف خلیفہ کوابھارا، تو خلیفہ نے کہا: ’’سیّدموسیٰ(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کو فوراً میرے دربارمیں پیش کرو۔‘‘ چنانچہ حضرت سیّدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دربارمیں تشریف لے آئے، خلیفہ اس وقت غیظ وغضب سے کرسی پربیٹھاتھا، خلیفہ نے للکار کر کہا: ’’آپ کون تھے جنہوں نے میرے ملازمین کی محنت کورائیگاں کر دیا؟‘‘ حضرت سیدموسیٰرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ’’میں محتسب ہوں اور میں نے اپنا فرض منصبی ادا کیا ہے۔‘ (جاری ہے)