پاک امریکہ تعلقات عالمی تناظر میں

امریکہ دنیا میں اگر کسی کا دوست ہے تو وہ خود اپنا دوست ہے۔ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے پولیس سے دوستی اچھی ہے نہ دشمنی۔ امریکہ پر بھی یہ مقولہ درست لاگو ہوتا ہے۔ اس کا امریکی وزیر داخلہ ہنری کسنجر نے اظہار اس طرح کیا تھا کہ امریکہ سے دوستی اور دشمنی دونوں ہی کسی ملک کے لیے سودمند نہیں ہو سکتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ سے کسی بھی ملک کی دوستی اسکے ساتھ دشمنی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے جس کی ایک مثال پاکستان ہے۔ دوستی کے زعم میں پاکستان نے اس پر اعتماد کرتے ہوئے اسکے بحری بیڑے کا انتظار کیا مگر وہ بیڑا کبھی پاکستان نہ پہنچ سکا۔ ہر ملک کی طرح امریکہ کو اپنا مفاد عزیز ہے، ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اپنے ملک کے مفاد کا تحفظ جینوئن قیادتیں ہی کر سکتی ہیں۔ بزدل لالچی اور کرپٹ قیادتیں ہرگز نہیں کر سکتیں۔ ملک کے مفاد کی مستقل ضمانت اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے۔ ایک موقع پر اسٹیبلشمنٹ بھی ملکی مفاد پر کمپرومائز کرتی نظر آئی، جس کے ثبوت اوباما کی کتاب سے اظہر من الشمس ہوتے ہیں۔ اوباما نے اسٹیبلشمنٹ کا نام تو نہیں لیا البتہ اس منظرنامے سے یہی اخذ ہوتا ہے۔ اوباما نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ 2011ء کو اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں ہلاک کیا گیا تو وائٹ ہائوس میں بڑی ڈسکشن ہوئی۔ نائب صدر جوبائیڈن نے اسکی مخالفت کی، ان کا موقف تھا کہ یہ ایک آزاد اور خودمختار ملک کی سلامتی کے خلاف اقدام ہوگا اور پاکستان اسے برداشت نہیں کرے گا۔ یہ وہی جابائڈن ہیں جنہوں نے پاکستان سے شدت کے ساتھ ڈو مور کا مطالبہ کیا تھا DO MORE لفظ جوبائڈن کی ایجاد ہے۔ اوباما کے بقول انہوں نے فیصلہ حملے کے حق میں کیا اور اسامہ کو ہلاک کر دیا۔ اس کالم نگار کو اسامہ بن لادن سے کوئی ہمدردی نہیں مگر امریکہ کا طریقہ کار غلط تھا۔ اوباما کہتے ہیں کہ ان کے لیے اس حوالے سے صدر زرداری سے فون کرنا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ پاکستان کے صدر غصے میں ہوں گے جیسا کہ ہر پاکستانی اسامہ بن لادن پر پاکستان میں حملے کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کر رہا تھا۔اوباما کہتے ہیں کہ انہوں نے صدر زرداری کو فون کیا تو انہوں نے امریکہ کے اس اقدام پر مبارک باد دی جس پر میں حیرت زدہ رہ گیا۔ اور پھر یہ مبارک وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ٹی وی پر بھی چلوا دی۔ عوامی شدید اشتعال کو دیکھتے ہوئے وہ بیان واپس لے لیا اور پھر خاموشی اختیار کر لی۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو مائنس نہیں کیا جا سکتا۔ اسٹیبلشمنٹ یہ بھی کر سکتی ہے کہ عوام کے سامنے سچ لائے۔ اگر سچ نہیں لایا جائے گا تو افواہیں جنم لیتی ہیں۔ مرضی کا بیانیہ میڈیا میں چلایا جاتا ہے۔ عدلیہ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو مفرور قرار دیا ہے۔ ان کو جیل پہلے ہی ہو چکی ہے۔ مفرور اور اشتہاری کو میڈیا پر نہیں دکھایا جا سکتا۔ ہمارے ہاں باقاعدہ نوازشریف پر لگی پابندی کو ختم کرانے کی مہم چل رہی ہے۔ مغرب میں جس شخص کو جیل ہو جائے اس کے ساتھ صرف بیوی کو ملاقات کی اجازت ہوتی ہے باقی کسی کو نہیں۔ ایک اور مذاق گلگت بلتستان میں انتخابی نتائج مسترد کرنے پر بھی اڑایا جاتا ہے۔ نتائج ماضی روایت کے مطابق ہیں ۔ مریم نواز کہتی ہیں کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں لوگ مرکز میں حکومت کرنے والی پارٹی کو حکومت میں لاتے ہیں کیونکہ وہ انکے مسائل حل کر سکتی ہے۔ ساتھ ہی کہتی ہیں الیکشن میں لوگوں نے مسلم لیگ ن کو ووٹ دیا مگر دھاندلی کی گئی ہے۔بلاول تو دھرنے دے رہے ہیں۔ پی پی پی اور ن لیگ کی قیادت ایک دوسرے کے ساتھ اتنی مخلص ہیں کہ گلگت بلتستان میں الیکشن الگ الگ لڑا اب دھاندلی پر متفق ہیں مگر ایک صرف دشنام طرازی کررہی ہے دوسری پارٹی دھرنے دے رہی ہے۔ گذشتہ ہفتے دو واقعات پاکستان میں پیش آئے۔ ایک تو علامہ خادم حسین رضوی مرحوم کا وصال اور دوسرا میاں نوازشریف اور شہبازشریف کی والدہ اور مریم نواز شریف کی دادی محترمہ بیگم شمیم اختر مرحومہ انتقال فرما گئیں۔مذہبی ،سیاسی ،مسلکی اور نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہو کر میں تحریک لبیک کے کارکنان اور شریف خاندان سے تعزیت کرتا ہوں ۔