عید سعید سے کلامِ سعیدتک…

شاعری عطیۂ خداوندی ہے۔ ہر شخص کو یہ نعمت نصیب نہیں ہوتی ، اور اگر کسی کو شاعری کے علاوہ نثر پر بھی عبور حاصل ہو تو ادبی صلاحیتیں دوآتشہ ہو جاتی ہیں۔ ایسے میںصحافت جیسے مقدس اور سپاہیانہ تعلق تجربے اور مشاہدے میں گُھل کر معراج کو پہنچ جاتا ہے۔ جو لوگ بیک وقت شاعر ، ادیب ، صحافی ، دانشور اور فکر ہوں۔ اُن کے علم تجربے مشاہدے تجزیے اور تفکر سے قلم میں روحانی اور نفسیاتی طاقتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں۔ میں نے یہ تمہید’’کلام سعید‘‘ کے حوالے سے باندھی ہے ۔ کلام سعیددراصل سیدآسی صاحب کا مجموعہ کلام ہے۔ جس میں اُن کے تین شعری مجموعے پیش کیے گئے ہیں۔ اردو مجموعہ کلام ’’تیرے دکھ بھی میرے دکھ ہیں‘‘ کتاب کا اولین مجموعہ ہے جبکہ پنجابی شاعری ’’سوچ سمندر‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اسکے علاوہ پنجابی قطعات ’’زمزاں‘‘ بھی اسی دیوان کا حصۂ سوئم ہے۔ اردو شاعری میں سعیدآسی صاحب نے چھوٹی بحروں کے استعمال سے کام لیا ہے۔ اُن کی قافیہ بندی مضبوط اور توانا ہے۔ ردیفیں بھی مناسب و متوازن ہیں۔ شاعری میں تین چیزیں دل موہ لیتی ہیں۔ نفسِ مضمون ، ذخیرۂ الفاظ کا جامع برمحل استعمال اور شاعری کا آہنگ…اگر شاعر کا خیال اچھوتا اور منفرد ہے تو شاعری دل کی گہرائیوں اور دماغ کی پرتوں میں اُتر جاتی ہیں۔ ایک نادر خیال شاعری کو آسمانوں کی وسعتوں سے پرے لے جاتا ہے۔ یہی چیز شاعر کو عام آدمی سے ممتاز بنا دیتی ہے۔ محبت تو سبھی کرتے ہیں۔ خوبصورت بھی بدصورت بھی ، گورے بھی کالے بھی۔ ہر شخص محبت کرتا ہے لیکن زیادہ تر محبتیں معمولی درجے کی اور عام فہم یا روایتی درجے کی ہوتی ہیں۔ محبت میں محبوبیت ، آفاقیت اور انفرادیت تب آتی ہے جب محبت میں بے پناہ مغلوبیت ہو یا محبت میں وقار ، انانیت ، بے غرضی ، علمیت اور شفافیت ہو۔ شاعر کو عمومی یا خصوصی اُسکی ’’محبت‘‘ بناتی ہے۔ محبت کے بہت سارے درجات ہیں۔ ہر شاعر اعلیٰ پائے کی محبت ، تہذیب و شائستگی ، معرفت و روحانیات اور شدتوں کی انتہائوں کے ساتھ محبت نہیں کرتا۔ پھر علمیت ، وقار اور انا کے ساتھ محبت کی کسک بھی شاعروں کی درجہ بندی کرتی ہے۔ سعید آسی صاحب کے ہاں شاعری میں رکھ رکھائو کا عنصر ہے۔ وہ تہذیب کے علمبردار اور خوددار آدمی ہیں۔ اُن کی شاعری میں ربط بھی ہے اور ضبط بھی۔ دل میں جہاں سوز ہے وہاں ساز بھی بجتا محسوس ہوتا ہے۔ سعید آسی صاحب کی شاعری کا خوش رنگ پہلو توازن سے مربوط ہے۔ فیض کے ہاں جو ٹھہرائو ، نرمی ، ملائمت اور شائستگی دکھائی دیتی ہے۔ اُسکی جھلک سعیدآسی صاحب کی شاعری میں موجود ہے۔ یہ رویہ ہمیں سعید آسی صاحب کی زندگی میں بھی حاوی دکھائی دیتا ہے مثلاً ان کا انتساب بہت سادہ بھی ہے ، پُرکار بھی ہے۔ پُرکشش بھی ہے اور پُرسکون ، پُرمغز بھی ہے۔ عموماً شعراء اس طرح کا انتساب قلمبند نہیں کرتے اور بیوی تو کبھی اُن کی محبوبہ ہو ہی نہیں سکتی۔ شاعروں کے لئے بیوی تو میان سے نکلی ایک تلوار ہوتی ہے جو سر پر لٹکی رہتی ہے مگر سعید آسی صاحب کے ہاں یہ رویہ یکسر مختلف ہے۔ پنجابی شاعری مجھے پڑھنی نہیں آتی۔ البتہ میں سعید آسی کی اس کتاب کے بارے میں یہ ضرور کہونگی کہ اُن کی تمام کتب میں سے یہ بہترین ہے۔ کتاب بہت اچھی شائع کی گئی ہے۔ ٹائٹل عمدہ ہے۔ کاغذ اچھا ہے۔ بیک ٹائٹل بھی معنی خیز ہے اور شاعری تو ہے ہی اچھی۔ سعید آسی صاحب کی شاعری دراصل اُن کی پوری شخصیت کی عکاس ہے۔ اُس میں دھیما پن بھی ہے اور دُھواں ہے اور ایک کسک محسوس ہوتی ہے۔ سعیدآسی صاحب کے ہاں بغاوت یا عداوت نظر نہیں آتی۔ اُن کا مزاج نرمیوں سے گوندھا ہوا ہے۔ وہ نرم پانیوں کی سرزمین اور سرسبز سوچوں کے مالک ہیں۔ اعتدال اور حلاوت ان کی شخصیت کے دو اہم پہلو ہیں۔ سعیدآسی صاحب میرے بہت قابلِ اعتماد اور مہربان کولیگ ہیں۔ جب میں نے نوائے وقت جوائن کیا تو وہ رپورٹنگ میںچیف رپورٹر تھے۔ انہوں نے مجھے جس طرح ویلکم کیا اور میری اُس وقت رہنمائی کی۔ وہ یقیناً اہم تھی۔ رپورٹنگ جوائن کرنے کے بعد مجھے عید سعید پر زیادہ چھٹیاں درکار تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ تب آسی صاحب نے نہایت فراخدلی سے مجھے اکٹھی ایک ہفتے کی چھٹیاں دیدیں۔ پھر صحافتی سفر میں ہم نے مل کر بہت گرم سرد دیکھا۔ سعید آسی صاحب نے جو اپنے ابتدائی نقوش قائم کئے۔ اسکے بعد میرے دل میں سعیدآسی صاحب کے لیے بہت احترام پیدا ہو گیا۔ بہرحال میرا تعلق عیدسعیدسے کلامِ سعیدتک بہت اچھا رہا۔ اس لئے میرے لیے بہت آسان ہے کہ میں اُن کی شاعری پر حتمی رائے دے سکوں کیونکہ یہ سفر 22 سالوں پر محیط ہے۔ یہ جو ساری کی ساری شاعری ہے دراصل آسی صاحب کی شخصیت کا پر تو ہے جس میں توازن ، سلاست ، ملائمت ہے۔