سب مسافر ہیں‘ بظاہر نظر آتے ہیں مقیم
انتخابات ہارنے والوں کے پاس ایک ہی آپشن ہوتا ہے کہ دھاندلی کا شور مچا دیں۔ ٹرمپ نے جو واویلا مچایا وہی گلگت بلتستان میں اپوزیشن کررہی ہے۔ دھاندلی الزامات کی تحقیقات ہی آفر کی جاسکتی ہے۔ عوام عمران خان حکومت پر اظہار اعتماد کر چکے ہیں۔ جی بی انتخابات میں پی ٹی آئی میدان مار چکی ہے۔ عوام نے پی ڈی ایم کا بیانیہ مسترد کردیا ہے۔ کرونا میں چار گنا اضافہ نے جلسوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ آنیوالے دنوں میں اپوزیشن کے پاس پریس کانفرنسوں کا آپشن باقی ہے۔ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ میرا الیکشن چرایا گیا وہ 12 سیٹیں جیت رہے تھے۔ پی پی کے دور میں 2009ء میں محدود اختیارات کے ساتھ صوبائی حیثیت دی گئی۔ جی بی انتخابات میں آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد بھی کامیاب ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی چند آزاد اراکین کی مدد سے وہاں آسانی سے حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیگی۔ جی بی میں سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ آئین پاکستان میں اس علاقے کی آئندہ حیثیت کیا ہوگی؟ عمران خان اعلان کرچکے ہیں کہ ان کی حکومت جی بی کو عبوری طور پر ایک صوبے کا درجہ دیگی۔ جنوبی پنجاب میں ایک علیحدہ صوبے کا قیام ہونا طے ہوا تھا اس کا مشاہدہ سب کے سامنے ہے۔ وسائل کی تقسیم جی بی کے کیا آئینی حقوق ہونگے۔ کیا جی بی کی حکومت بدستور وفاقی وزارت امور کشمیر اور جی بی کے ماتحت رہے گی۔ اس علاقے کی آئندہ جو بھی حیثیت ہوگی وہ آزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت سے کس طرح مختلف ہوگی۔ گلگت شہر میں ابھی بھی پی پی کا مضبوط ہولڈ ہے لیکن اس نے اپنی توقع سے تین سیٹیں کم جیتی ہیں۔ اسی طرح ن لیگ نے صرف دو سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔
جنت نظیر گلگت بلتستان میں ’’کے ٹو‘‘ اور ’’نانگا پربت‘‘ سمیت دنیا کی آٹھ میں سے پانچ بلند ترین چوٹیاں ملکی و غیرملکی کوہ پیمائوں اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔ قطبین سے باہر جتنے بھی بڑے گلیشیئرز ہیں ان میں سے تین (بیافو‘‘ بالتورو اور بتورا) یہیں ہیں۔ تبت کے بعد دنیا کی دوسری بلند سطح مرتفع دیوسالی بھی گلگت بلتستان کی شان ہے۔ دنیا میں بلند ترین مقام پر ہونیوالا پولو کا سالانہ میلہ بھی شندور ہی میں سجتا ہے۔ یہاں کی اوسطاً شرح خواندگی 72 فیصد سے زائد ہے۔ باہمی رابطے کی زبان ہونے کا اعزاز اردو کو حاصل ہے۔ جی بی ایک حساس علاقہ ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے یہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا جس نے ڈوگرہ راج کے خلاف جنگ لڑ کر آزادی حاصل کی۔ جی بی کی اصل وجہ افتخار چنار باغ میں یادگار شہداء ہے۔ یہ یادگار ان حریت پسندوں کی یاد دلاتی ہے جنہوں نے اس خطے کو 1947-48ء میں کشمیر کے ڈوگرہ راج سے نجات دلانے کیلئے جام شہادت نوش کیا تھا۔ اس خطے کی قسمت صحیح معنوں میں بھٹو دور حکومت میں چمکی۔ 1974ء میں ناردرن ایریا کونسل قائم ہوئی اسکے بعد لیجیسلٹیو کونسل اور پھر لیجیسلیٹو اسمبلی قائم ہوئی اور جی بی کو اپنا وزیر اعلیٰ بھی مل گیا۔ 29 ہزار مربع میل کے اس وسیع و عریض دشوار گزار اور انتہائی پسماندہ علاقے کے مسائل پر توجہ دیکر اسے ملک کے دوسرے حصوں کے برابر لانے کی جامع منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔ یہ علاقہ سی پیک کی وجہ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جی بی میں یہ تیسرے عام انتخابات ہیں۔ پہلے دو انتخابات بالترتیب پی پی اور ن لیگ نے جیتے تھے۔ پی آئی اے سے 3500 ملازمین ریٹائر کرنے سے ایئرلائن کو سالانہ چار ارب روپے بحث ہوگی۔ گولڈن ہینڈ شیک پر 12 ارب خرچ ہونگے۔ 12 ارب خرچ کرکے چار ارب بچانے کی سمجھ نہیں آتی۔ اس وقت ہمارا بجٹ خسارہ 484 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ رواں مالی سال اب تک کل اخراجات 1879 ارب روپے کے ہوئے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں یہ بات کہی گئی کہ توانائی ڈویژن کی نالائقی کے باعث گردشی قرضے میں 1341 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ دو سال میں حکومت نے پانچ دفعہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا مگر گردشی قرضہ کم نہیں ہوا۔ (جاری)