بامقصد زندگی کا استعارہ۔ علامہ خادم رضوی
بے شک موت برحق ہے‘ اس سے مفر نہیں‘ ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور بے شک آپ کہیں بھی بھاگتے چلو‘ مشیت ایزدی سے آپ کا پیچھا کرتی موت عین متعینہ وقت پر آپ پر آن لپکے گی…؎
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ‘ کل ہماری باری ہے
بے شک سب نے اپنا متعینہ وقت پورا کرکے آگے کا سفر باندھنا ہے‘ گویا…؎
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
سو اپنی موت تک کے سفر کو اس سے آگے کے سفر کیلئے آسان بنائیں۔ اس وقت تک کی زندگی کو بامقصد بنالیں تو حیات بعداز ممات کی کٹھنائیاں آسانی سے گزرتی‘ طے ہوتی رہیں گی۔ بامقصد زندگی وہ ہے جو خلق خدا کی خدمت میں بسر ہو۔ جوشرف انسانیت کی پاسداری کرتے گزرے‘ جو خالقِ کائنات کی تابع فرمان اور حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بے پایاں جذبے کی فراوانی کے ساتھ گزاری جائے۔ بے شک خداوند کریم نے اپنے ان بندوں کو ہی محبوب رکھا ہے جو اسکی مخلوق کو محبوب رکھتے ہیں۔ اس بے ثبات زندگی کو ان لوازمات کے ساتھ بامقصد بنالو تو زمانہ آپ کا اسیر ہوگا‘ ورنہ تو بس ایسا ہی ہے کہ…؎
زندگی‘ تیرے تعاقب میں لوگ
اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
تو بھائی صاحب! چلتے چلتے مر جانے سے پہلے کچھ کر جائیے تاکہ اس جہانِ فانی میں بھی آپ کو یاد رکھا جائے اور جہانِ لافانی میں بھی آپ اپنے خالق کے محبوب بنیں رہیں۔
مجھے علامہ خادم رضوی سے کبھی کوئی خاص نسبت نہیں رہی‘ وہ میرے علاقے سبزہ زار کے قرب و جوار میں عرصہ دراز تک مقیم رہے اور دو سال قبل وہ سبزہ زار سکیم ڈی بلاک کے ایک گھر میں تحریک لبیک کا مرکزی دفتر منتقل کرنے کے بھی خواہش مند تھے مگر میری ان سے یاداللہ کا سلسلہ کبھی نہ بن پایا۔‘ بس ایک خطیب اور مبلغ کی حیثیت سے ان کا نام سن رکھا تھا‘ان سے کبھی ملاقات کا شرف حاصل نہ ہو پایا۔ حبِ رسول صلی اللہ علیہ سے سرشار ایک پولیس اہلکار ممتاز قادری نے شاتمۂ رسول ؐ آسیہ بی بی کی حمایت اور جیل میں اس سے ملاقات کی پاداش میں اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو انکے دورۂ اسلام آباد کے موقع پر سرکاری آتشیں اسلحہ سے برسٹ مار کر قتل کیا اور پھر خود کو گرفتاری کیلئے پیش کیا تو نبی ٔآخرالزمان سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانوں میں حرمتِ رسولؐ پر کٹ مرنے کا ایک نیا جذبہ پیدا ہوگیا اور ممتاز قادری نے رحمۃ للعالمینؐ کیلئے وارفتگی کی اس فضا میں ہیرو کا درجہ حاصل کرلیا۔ اسکی گرفتاری سے اسکی سزائے موت تک اس ارضِ وطن کی فضا اس پر گلاب کے پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتی رہی۔ لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس خواجہ محمد شریف نے اعلیٰ عدلیہ میں اسکی وکالت کا فریضہ نبھایا اور جید علماء کرام اسکے کیس کی سماعت مکمل ہونے تک عوام الناس کو سرور کائنات‘ خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و عزیمت کا درس دیتے حرت رسولؐ پر اپنی جانیں نچھاور کرنے کا جذبہ اجاگر کرتے رہے۔ اسی دوران علامہ خادم رضوی کا نام بھی سامنے آیا۔ ممتاز قادری کو ملکی قوانین کے تحت پھانسی کی سزا ہوئی جو سپریم کورٹ تک برقرار رہی اور پھر وہ حبِّ رسولؐ میں پھانسی کے پھندے پر جھول گیا تو اس عاشق رسولؐ کی میت کا منظر دیدنی تھا۔ میل ہا میل لمبا جلوس اور جنازے میں لاکھوں افراد کی شمولیت‘ بے شک کسی بندے کے خدا کے محبوب ہونے کا اندازہ اسکے جنازے کے شرکاء کی تعداد سے لگایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ممتاز قادری خدا کی محبوبیت کے بلند درجے پر فائز تھا۔ اسکے بعد علامہ خادم رضوی حرمتِ رسولؐ کے پاسبان کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کی سیاسی فضائوں پر بھی حاوی ہوگئے۔ بہت کہانیاں چلیں کہ وہ کسی کے مہرے کے طور پر منظر عام پر لائے گئے ہیں۔ انہوں نے تحریک لبیک یارسول اللہ تشکیل دی اور عاشقانِ رسولؐ کا ہجوم انکے جلو میں آگیا۔ انکے ذریعے محاذآرائی کی سیاست میں نئی ہلچل پیدا کرنیوالوں کے یقیناً اپنے مقاصد ہونگے مگر علامہ خادم رضوی شاتمانِ رسولؐ کو ببانگ دہل للکارنے اور حرمتِ رسولؐ پر پہرہ دینے والی مضبوط آواز بن گئے۔ اسی تناظر میں انکی تقاریر میں انکے جذبات کی وارفتگی گنبدِ خضریٰ کے نور کی کرنیں بکھیرتی نظر آتی تھی۔ اپنے جسم کی معذوری کو انہوں نے کبھی اپنی مجبوری نہ بننے دیا اور جہاں بھی حرمتِ رسولؐ کی پاسبانی کیلئے انہیں پکارا گیا‘ وہ وہیل چیئر کے ساتھ وہاں موجود پائے گئے۔ 2018ء کے انتخابات کی مہم کے دوران وہ ملک کی مکدر ہوتی سیاسی فضا میں تیسری قوت کے طور پر ابھرتے نظر آئے اور سندھ میں صوبائی اسمبلی کی کچھ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوگئے۔ چنانچہ ’’دائیں‘ بائیں‘‘ والی سیاست میں وہ دائیں بازو کی سیاست کے ترجمان کی حیثیت سے ابھرنے لگے۔ پھر فیض آباد دھرنے نے انکی سیاسی قوت مزید تسلیم کرائی۔ وہ بلاشبہ کاخِ امراء کے درودیوار ہلانے والی عوامی طاقت کی علامت بن کر اقبال کے شاہین کے رتبۂ بلند پر سرفراز ہوتے نظر آرہے تھے۔
حبِّ رسولؐ سے سرشار اس عوامی طاقت کا عملی مظاہرہ انہوں نے فرانسیسی صدر میکرون کی گستاخانہ خاکوں کی سرپرستی کرنیوالی مکروہ حرکت کیخلاف شمعٔ رسالتؐ کے لاکھوں پروانوں کے ہمراہ اسلام آباد کی سڑکوں پر آکر کیا اور فضا ایسی بنی نظر آئی کہ وہ فرانسیسی سفارتخانہ کی جانب بس اشارہ کرتے تو محبانِ رسول اس ایک اشارے پر لبیک کہتے ہوئے سفارتخانہ کو روئی کے گالوں کی طرح دھنک کر اڑادیتے۔ انہوں نے اس کیلئے حاکمان وقت کو اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کرکے بھی دکھا دیا اور امن عامہ میں خلل بھی پیدا نہ ہونے دیا۔ مگر ایک معاہدے کے تحت حکومت کو پابند کر دیا کہ وہ دو ماہ کے اندر اندر فرانسیسی سفیر کو یہاں سے نکالنے اور اپنا سفیر فرانس سے واپس بلانے کا قطعی فیصلہ کرلے گی۔ حرمتِ رسولؐ کیخلاف شرارت پر آمادہ الحادی قوتوں کے ذہن ٹھکانے پر لگانے کیلئے ایسے ہی جذبات کی ضرورت ہے جس کا عملی مظاہرہ علامہ خادم حسین رضوی نے شمعِ رسالتؐ کے پروانوں کی معیت میں اسلام آباد میں اقتدار کی راہداریوں میں کیا۔ اسکے ٹھیک دو روز بعد جبکہ حکومت انکے ساتھ طے پانے والے معاہدے سے منحرف ہوچکی تھی‘ علامہ خادم رضوی کا سانحۂ ارتحال ہر آنکھ کو نم اور ہر سوچ کو دکھی کر گیا اور پھر…؎
جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے‘ اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
چشم فلک نے دیکھا کہ انسانوں کا سمندر انکے آخری دیدار کو امڈ آیا تھا اور انکی نماز جنازہ کے وقت تو مینار پاکستان اور اسکے چاروں اطراف میل ہا میل تک تل دھرنے کو جگہ نہیں بچی تھی۔ بے شک رب کائنات اپنے کسی بندے کے محبوب ہونے کی خود گواہی دیتا ہے تو اسے علامہ خادم رضوی جیسی عزت افزائی سے سرفراز کرتا ہے۔ لبرل ازم والے برگشتہ لوگ انکے عظیم الشان جنازے کے حوالے سے بے شک اپنی آنکھیں بند اور دماغ مائوف کئے رکھیں‘ وہ انسانوں کے اس سمندر کو جھٹلا سکتے ہیں نہ حرمتِ رسولؐ کی پاسبانی کے بیدار ہوئے جذبے کو اپنی منشاء کے معانی نکال کر سلا سکتے ہیں۔ علامہ خادم حسین رضوی اس بے پایاں جذبے کا مضبوط ستون ہیں اور آسودۂ خاک ہو کر بھی بامقصد زندگی کی علامت بنے رہیں گے۔ یہ ارض وطن عاشقان و محبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دھرتی ہے جس کے کلمہ گو باسی حرمتِ رسولؐ پر اپنی زندگیاں نچھاور کرنے کی سرشاری کے ساتھ بامقصد زندگی گزارنے کا عزم ٹھانے رکھیں گے۔ علامہ خادم حسین رضوی کا طرز حیات کسی کی آنکھ کو نہیں بھاتا تو یہ اس کا اپنا معاملہ ہے مگر علامہ صاحب ختم نبوتؐ پر آنچ نہ آنے دینے کا جو جذبہ ابھار گئے ہیں اسے سرد کرنا اب کسی کے بس کی بات نہیں اور یہی ان کیلئے توشۂ آخرت ہے…؎
خدا رحمت کنند ایں عاشقانِ پاک طینت را
٭…٭…٭