سوتے ہیں انکے سائے میں
برِ صغیر میں راجِ برطانیہ کے دوران وائسرائے نے تاج محل کا وزٹ کیا ۔ جب وائسرائے کی بیوی وزیٹر بُک میں اپنے تاثرات لکھنے لگی تو وائسرائے کو مخاطب کر کے لکھا کہ "اگر تم مجھ سے وعدہ کرو کہ میرے مرنے کے بعد میری یاد میں ایسا تاج محل بنوائو گے تو میں ابھی اور اسی وقت مرنے کیلئے تیار ہوں"
ہر صدی میں اللہ کریم دینی دنیوی لحاظ سے کچھ خاص روحیں دنیا میں بھیجتے ہیں جو اللہ کے حکم سے اپنا منفرد رول ادا کر کے تاریخ میں زندہ و جاوید کر جاتے ہیں اور آنے والی نسلوں کیلئے ان کا کردار مشعلِ راہ بن جاتا ہے ۔ خالقِ کائنات کبھی دین ِ حق کیلئے اور کبھی کبھی خاص طور پر عظمتِ مصطفی کیلئے عاشقانِ رسول ﷺ سے کام لیتے ہیں اور پھر تاریخ بتاتی ہے کہ شب و روز عبادت کرنے والوں سے شاید وہ منزلیں طے نہیں ہوتیں جو آقا کریم ﷺ کے عشق میں لمحوں میں طے ہوتی ہیں اور بقول امام احمد رضا خانصاحب بریلوی ؒ :
اے عشق تیرے صدقے جلنے سے چھُٹے سستے
جو آگ بُجھا دے گی وہ آگ لگائی ہے
اسلامی مملکتِ خداداد کے اندر مختلف سیاسی اور دینی جماعتیں اپنا رول ادا کرتی رہی ہیں۔ مگر ان میں "تحریکِ لبیک پاکستان "اور خاص طور پر ان کے سر براہ جناب علامہ خادم حُسین رضوی صاحب ؒ نے مختصر وقت میں اسلام اور پاکستان کیلئے اپنا رول ادا کر کے "لبیک یا رسول اللہ ﷺ لبیک یا رسول اللہﷺ"کہتے کہتے عشقِ رسول ﷺ کی شمیں روشن کر کے آغوشِ رسول ﷺ میں چلے گئے ۔ شاید ہی تاریخ کا کوئی ایسا جنازہ ہو جس پر کسی عاشقِ رسولﷺ کے سفرِ آخرت میں لاکھوں محبانِ دین و ملت آقا کریم ﷺ کے پروانے عظمتِ رسول ﷺ کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے کے عہدو پیماں کرتے ہوئے لبیک یا رسول اللہ ﷺ لبیک یا رسول اللہ ﷺ کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے آقا کریم ﷺ کے ایک عاشق غلام کو لبیک یا رسول ﷺ کا تاج پہناتے ہوئے حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری کے دَر کے سامنے سے گزرتے ہوئے داتا گنج بخش سرکار ؒ کو بھی گواہ بنا رہے ہوں کہ حضرت آپؒ نے جو آقا کریم ﷺ کی شمعِ محبت روشن کی تھی وہ آج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نور بکھیر رہی ہے ۔آج پورے ملک سے آقا کریم ﷺ سے محبت کرنے والے ہر مکتبہ فکر کے مذہبی سکالرز، پیر صاحبان اور خاص طور پر اہالیانِ لاہور آقا کریم ﷺ کے غلام کے سفر میں شامل ہونے کیلئے اُمڈ آئے ہیں۔
جتنے پھول سرکارِ دوعالم ﷺ کے اس غلام کے جنازے پر نچھاور ہوئے تاریخ میں اس کی مثال نہیںملتی آج 10منٹ کا سفر گھنٹوں پر محیط ہو گیا ہے۔ رضوی صاحب درودو سلام کی صدائوں کے اندر لبیک یا رسول اللہ ﷺ کا تاج پہنے مسکراتے ہوئے ایمبولینس میں جا رہے ہیں انھیں دیکھ کر بالکل ایسے لگ رہا تھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ:
حُجت نہ پیش کیجئے کوئی فضول میں
ہم انتہا پسند ہیں عشقِ رسول ﷺ میں
آقا کریم ﷺ کے دیوانو! آج میرے سرکار کا ایک جرنیل دنیا سے بے نیاز ہو کر سرکار ﷺ کے پاس حاضر ہو گیا ہے اور دنیا کو بتا گیا کہ :
انہیں جانا، انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
لِلّہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
میرے سرکار کے عاشق ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ یہ فیصلہ حشر میں ہوگا کہ "جیتا کون اور ہارا کون "
ہم سُوئے حشر چلیں گے شاہِ ابرار کے ساتھ
اور قافلہ ہوگا رواںقافلہ سالار کے ساتھ
یہ تو طیبہ کی محبت کا اثر ہے ورنہ
کون روتا ہے لپٹ کر درو دیوار کے ساتھ
اے مظہر ہم بھی سنیں گے کوئی نعت رنگیں
گر ملاقات ہو گئی شاعرِ دربار کے ساتھ
آپؒ کا سرکارﷺ کے چاہنے والوں کیلئے ہمیشہ یہی پیغام رہا ہے کہ : "جھلیو! اتنی حضورﷺ نال محبت ضرور کر کے جانا کہ جدوں قبر وچ فرشتے پچھن تے سرکار ﷺ آپ فرما دیں "جانے دو یہ اپنا ہی ہے"
جناب خادم حسین رضوی صاحب یہ کہتے ہوئے سرکار ﷺ کے سامنے پیش ہو گئے کہ جو غازی عبد اللہ ذیشان نے فرانس میں کیا وہ وہی عمل تھا جو رسولﷺ کی محبت میں ضروری تھا۔ آپؒ ہمیشہ فرماتے کہ میری گفتگو صرف حضورﷺ سے محبت کرنے والوں سے ہے بزدلوں سے میر ی کوئی بات نہیں ہے۔ آپؒ کا آخری خطاب بھی یہی تھا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی عظمت کیلئے نکلے ہیں اور دنیا والوسُن لو یہ نظامِ کائنات صرف حضور ﷺ کی وجہ سے چل رہا ہے۔ ہماری ذمہ داری صرف اور صرف تاجدارِ ختمِ نبوت ﷺ زندہ باد کا نعرہ ہے۔ آپؒ کی للکار کہ دہلی کا قطب مینار بھی ہمارا ہے جامع مسجد دہلی کے ساتھ تاج محل بھی ہماراہے اور ہم بابری مسجد کا بدلہ ضرور لیں گے اور کشمیر چوکوں میں احتجاج سے آزاد نہیں ہوگا ۔ حکمرانوں کو محبت رسول ﷺ میں سرشار ہو کر نورالدین زنگی، محمود غزنوی، صلاح الدین ایوبی ، شہاب الدین غوری کی لائن میں کھڑے ہونے کے رموز سے آگاہ کرتے رہے اور بالآخر :
اب رہیں چین سے زمانے والے
سو گئے خواب سے لوگوں کو جگانے والے
آج میرے آقا کریم ﷺ پر بھونکنے والوں کو جواب دینے والا چلا گیا۔ اللہ کی قسم علامہ محمد اقبال ؒ کی پوری شاعری کا نچوڑ اس شعر میں ہے کہ:
کی محمدﷺ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
مجھے لگتا ہے کہ اللہ کریم نے جناب اقبال ؒ کو پیدا ہی اس لیے کیا تھا کہ وہ دنیاکو بتا دیں کہ"گر کی محمدﷺ سے وفا تُونے تو پھر ہم تیرے ہیں "اس شعر کی تعبیر علامہ خادم حسین رضوی ؒ کے سفرِ آخرت سے جھلک رہی تھی کہ مخلوقِ خدا دیوانہ وار آپکی ایک جھلک دیکھنے کیلئے ترس رہے تھے اور آپ پرسکون سوئے ہوئے عاشقانِ رسولﷺ کا جمِ غفیر دیکھ کر گویا کہہ رہے تھے کہ :
رُخصتِ قافلہ کا شور غش سے ہمیں اٹھائے کیوں
سوتے ہیں انکے سائے میں کوئی ہمیں جگائے کیوں
٭…٭…٭