منگل ‘ 8؍ ربیع الثانی ‘ 1442ھ‘ 24؍ نومبر 2020ء
پی ڈی ایم کو ملتان میں جلسے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ
یہ جلسہ قلع کہنہ قاسم باغ میں ہونا تھا۔ اب حکومت کرونا کی وجہ سے اجازت دینے سے انکار کر رہی ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے۔ حکومت نے تو پشاور میںبھی جلسے کی اجازت نہیں دی تھی وہاں کس نے حکومت کی بات مانی جو اب کوئی ملتان میں مانے گا۔ پشاور کی طرح ملتان میں بھی جلسے والے دن رکاوٹیں لگا کر عوام کو تنگ کیا جائے گا۔ حالانکہ وہ بے چارے بے گناہ ہوتے ہیں۔ جلسے میں شرکت کرنے والے تو تمام تر رکاوٹوں اور پابندیوں کو توڑتے ہوئے جلسہ گاہ میں پہنچ جاتے ہیں۔ لاٹھی چارج ، آنسو گیس ، کنٹینرز ان کی راہ نہیں روک پاتے۔ ویسے تو عوام یہ بھی پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ پورے ملک میں صرف پی ڈی ایم کے جلسوں پر پابندی کیوں لگائی جا رہی ہے۔ آخر باقی جماعتیں بھی تو یہی گناہ کر رہی ہیں۔ ان پر روک ٹوک کیوں نہیں جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کھلم کھلابڑے بڑے جلسے کر رہے ہیں۔ کیا ان سے کرونا کا خطرہ نہیں۔ گلگت بلتستان میں سارے ملک نے دیکھا کرونا کے اعلانات کے باوجود تحریک انصاف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے بڑے بڑے جلسے کئے ۔ وہاں کسی کو کرونا کیوں یاد نہ آیا۔ یہ یکطرفہ پابندیاں صرف پی ڈی ایم کے لیے ہی کیوں ہیں۔ اگر پابندیاں لگانی ہیں تو سب پر لگائی جائیں ۔ قانون سب کے لیے یکساں ہونا چاہئے ورنہ تو لوگ باتیںکرتے رہیں گے۔ صرف یہی نہیں ان یکطرفہ پابندیوں کو مستردبھی کریں گے۔
٭٭٭٭
ٹرمپ کو وائٹ ہائوس سے نکالنے کے لیے فوج کی مدد لے سکتے ہیں۔ اوبامہ
لگتا ہے آج کل امریکہ کے سابق صدر بارک اوبامہ کا سر کچھ زیادہ ہی گرم ہو گیا ہے تبھی وہ اپنی پارٹی کے صدارتی امیدوار جوبائیڈن کی جیت پر کچھ زیادہ ہی سرگرمی دکھا رہے ہیں۔ ٹرمپ کا تو سب کو علم ہے کہ وہ بھی کچھ زیادہ ہی سر پھرے ہیں۔ ان کی شکل دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ وکھری ٹائپ کے بندے ہیں۔ اس لیے لوگ ان سے کنی کتراتے ہیں۔ اب وہ20 جنوری تک تو بہرحال وائٹ ہائوس میں قانونی طریقہ سے براجمان رہ سکتے ہیں ۔ مگر آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ ان کا 20 جنوری کے بعدبھی وہاں سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ اس لیے وہ الیکشن میں دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں۔ مگر کب تک یہ تماشہ وہ لگائے رکھیں گے۔ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی بالآخر نہیں وائٹ ہائوس سے یہ کہتے ہوئے نکلنا ہو گا
…کیا خبر تھی تیری محفل سے نکلنا ہو گا
دل نہ چاہے گا مگر آگ میںجلنا ہو گا
سو اب اوبامہ جی نے ان کی اڑی دیکھتے ہوئے ان کا شافی علاج بھی پہلے سے ہی سوچ لیا ہے۔ اسی لیے وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہائوس سے نکلنے سے انکار کیا تو پھر نئے صدر قانونی طریقے سے فوج طلب کر کے موصوف کو اٹھا کر باہر پھینک سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ پڑھ کر تو ہمیں اسلام آباد کا وزیر اعظم ہائوس یادآ گیا جہاں اکثر و بیشتر کوئی کہے یا نہ کہے جب چاہے وردی والے داخل ہو کر جسے چاہیں اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
اپوزیشن رہنمائوں کے لیے بلور ہائوس میں ظہرانہ۔ مٹن ، چکن تکہ ، چپلی کباب، کابلی پلائو ، گاجر اور سوجی کا حلوہ پیش کیا گیا
حاجی غلام احمد بلور صاحب کے حوالے سے تو ابھی تک زیادہ تر ریلوے کا بیڑہ غرق کرنے کی باتیں ہی سنی تھیں ، کوئی بندہ بشر ان کی کسی خیر و خوبی کے حوالے سے رطب اللسان نہیں پایا۔ آج کل وہ عمر کے آخری حصے میں ہیں۔ کمزور پہلے بھی تھے اب کچھ زیادہ لگ رہے تھے۔ مگر اس عمر میں بھی ان کے ولولے جوان ہیں۔ انہوں نے پی ڈی ایم کے رہنمائوں کو جو پشاور میںجلسے کے لیے جمع تھے ظہرانے پر اپنے ہاں مدعو کر لیا۔ ان کی اپنی جماعت اے این پی بھی اس اپوزیشن اتحاد میںشامل ہے جو عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے ’’گرتی ہوئی دیواروں کو ، ایک دھکا اور دو‘‘ کے نعرے لگاتی پھر رہی ہے ۔ مگر ابھی تک تین سال ہونے والے ہیں۔ یہ دیوار گرائی نہیں جا رہی۔ شایداپوزیشن رہنمائوں کی یہی کمزوری دیکھ کر بلور صاحب نے اپنے ہاں جس ظہرانے کا اہتمام کیا اس میں مقوی خوراک کو اولیت دی۔ مٹن کڑاہی ، چکن تکہ ، چپلی کباب ، کابلی پلائو ، گاجر کا حلوہ ، صرف اس پر بس نہیں مولانا فضل الرحمن کے حکم پر سوجی کا خاص حلوہ بھی مہمانوں کی تواضح کے لیے پیش کیا گیا۔ یہ سب کھانا بھی اعلیٰ مقوی دیسی گھی یا روغن زیتون میں ہی پکایا گیا ہو گا۔ شایداس طرح پی ڈی ایم میں طاقت آئے اور وہ حکومت کا تختہ الٹ دے۔ ۔ بلاول مریم اور خودبلور صاحب بھی جو پرہیزی کھانا کھاتے ہیں ‘ان لوازمات کو دیکھ کر ہاتھ نہ روک پائے ہونگے اور باقی مہمانوں کے ساتھ ڈٹ کر ضیافت اڑائی ہو گی۔
٭٭٭٭٭
سویڈن میں حجاب پر پابندی کا فیصلہ کالعدم
سویڈن کے سکون نامی علاقے کے قصبے سکوروپ میں بلدیہ کی طرف سے حجاب پر پابندی کا قانون عدالت نے کالعدم قرار دیا اور کہا کہ بلدیہ کا یہ قانون ملک کے آئین اور مذہبی آزادیوں کے خلاف تھا۔ عدالت کے اس فیصلے سے علاقے کی فضا پرسکون ہو گئی ہو گی۔ بے سکونی اور بے چینی اگر بڑھی ہو گی تو وہ صرف ان انتہا پسندوں میں جنہیں حجاب سے نجانے کیوںخوف آتا ہے۔یورپ میں جو عیسائی نن یا دیہی خواتین حجاب پہنتی ہیں اس پر کبھی بروافروختہ نہیں ہوتے‘ عناصر کو صرف مسلم خواتین کے سکارف پہننے پرتن بدن میں آگ سی لگ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ ان با حجاب خواتین سے بدزبانی ہی نہیں انہیں جسمانی تشدد کا بھی نشانہ بناتے ہیں۔ امید ہے باقی یورپی ممالک کے حکمران بھی سویڈن کی اس عدالت کے فیصلے کی ورق گردانی کرتے ہوئے اپنے حجاب مخالف رویوں اور قوانین پر نظرثانی کریں گے۔ حجاب کسی کام کا ج میںرکاوٹ نہیں ڈالتا یہ تو صرف مسلم خواتین کے لباس کا حصہ ہے۔ اس لیے اس سے ڈرنے اور جلنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ یہ صرف مسلم خواتین کی پہچان ہے۔ اس سے کسی کو الرجی کیوں۔
٭٭٭٭٭