اردوان اور عمران۔سید سجاد بخاری کا موازنہ
ترکی کے صدر اردوان اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان میں کئی مشترکات ہیں،یہ موازنہ سید سجاد بخاری نے کیا ہے ۔ وہ ڈیلی مساوات کے پبلشرا ور چیف ایڈیٹر رہے ہیں اور ان دنوں ڈیلی اب تک کے پبلشر اور ایڈیٹر ہیں،وہ ایک اسکالر اور محقق بھی ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف بھی، چند برس قبل لاہور ایڈیٹرز کلب بنا تو ان سے قربت پیدا ہوئی۔ان سے شایدپہلی ملاقات اسوقت ہوئی جب پچانوے میں وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اقوام متحدہ کی ڈائمنڈ جوبلی اور کولمبیا کے جزیرے کارتا ہینا میں غیر جانبدار سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنے ساتھ میڈیا کی ایک ٹیم بھی لے گئیں۔ہم ایک ساتھ ہوٹلوں میں بھی ٹھہرے۔وہاں کے صحافیوں سے بھی ملاقاتیں اکٹھے کیں اور شاپنگ کے لئے بھی ایک ساتھ گھومے خاص طور پر کارتاہینا کے خوبصورت ساحلی شاپنگ مراکز میں، واپسی کے سفر میں وزیر اعظم نے چار صحافیوں کے ایک گروپ سے مشترکہ ملاقات کی تو وہ بھی اس گروپ کا حصہ تھے۔بخاری صاحب بے حد حلیم الطبع اور نفیس شخصیت ہیں اور میں ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتا ہوں۔یعنی اندر باہر سے شفاف ، کھری اور دلربا شخصیت۔ وہ جاندار قہقہہ لگاتے ہیں۔
پچھلے دنوں ان سے لمبی بات ہوئی،ملاقات میں نہیں بلکہ فون پر اور وہ بھی واٹس ایپ پر۔کہنے لگے کہ میںنے دور حاضر کے دو عظیم لیڈروں کا تقابل کیا ہے اور حیرت انگیز حد تک ان میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔
شاہ صاحب نے کہا کہ پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ میں نے یہ موازنہ کیا کیوں ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ انیس سو ستاسٹھ کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے عربوں کے بہت بڑے رقبے پر قبضہ کر لیا اور اس میں القدس شریف بھی تھا ، اسرائیل نے مسلم دشمنی میں القدس شریف کو آگ لگا دی جس سے عالم اسلام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور اس سنگین مسئلے پر غور کرنے کے لیے مسلمان حکمران مراکش کے شہر رباط میں جمع ہوئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ اسلام دشمنوں کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر جد و جہد کی جائے ۔ اس مقصد کے لیے او آئی سی کی تشکیل پائی ، او آئی سی کی تنظیم اقوام متحدہ کے بعد سب سے بڑی خیا ل کی جاتی ہے کیونکہ اس میں ستاون اسلامی ممالک شامل ہیں ، بد قسمتی سے او آئی سی اپنے مقصد سے پیچھے ہٹ گئی مگر تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم بھٹو اور سعودی عرب کے شاہ فیصل او آئی سی کے مقاصد سے مخلص رہے۔مگر انہیں اس کی سزا بھگتی پڑی اور دونوں کو اسلام دشمن قوتوں نے شہید کردیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ او آئی سی خواب خرگوش میں مست ہوگئی۔اور اسلام دشمن مملکتوں نے مسلم اقلیتوں پر ہر جگہ ظلم ڈھانے شروع کر دیے۔فلسطین کشمیر، روہنگیا ،بھارت ہر جگہ مسلمانوں کا خون بہہ رہا تھا مگر او آئی سی خاموش بیٹھی رہی ۔
اس تناظر میں آج اگر کوئی فلسطینیوں اور کشمیریوں کی بات کرتا ہے تو وہ دو مسلم حکمران ہیں ایک اردوان اور دوسرا عمران ، گزشتہ برس جنرل اسمبلی کے اجلاس میں عمران نے دنیا کو للکارا کہ کشمیر میں نریند ر مودی ظلم اور جبر کا سلسلہ بند کریں ورنہ دنیا کو ایٹمی تباہی کا خطرہ مول لینا پڑے گا ، صدر اردوان نے اس جذباتی تقریر پر بے ساختہ عمران کو گلے لگایا اور ان کا ماتھا چوما ، صدر اردوان کا مشہور قول ہے کہ گنبد ہمارے مورچے ہیں اور مسجدوں کے مینار ہمارے میزائل ہیں ، انہوں نے فرانس کے صدر کو خاکوں کی اشاعت پر پاگل قرار دیا ، جنرل اسمبلی میں عمران کایہ فقرہ بھی بار بار گونج رہا ہے کہ وہ کشمیر کے سفیر اور کشمیر کے وکیل بنیں گے۔
سید سجاد بخاری کہتے ہیں کہ یہ اتفاق کی بات ہے کہ سیاست میں آنے سے پہلے عمران نے ایک کرکٹر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی اور اردوان نے فٹ بالر کی حیثیت سے اپنا لوہا منوایا، یہ بھی اتفاق کی بات ہے کہ دونوں حکمرانوں نے عوام کی خدمت کا آغاز فلاحی کاموں سے کیا ، عمران نے شوکت خانم بنایا اور اردوان نے ترک عوام کی بھلائی کے لیے درجنوں کام کیے۔ دونوں کی سیاسی جماعتو ںنے دو ہزار دو میں پہلی مرتبہ الیکشن لڑا اور انتخابی کامیابی حاصل کی۔ صدر اردوان بھی ایک مضبوط فوجی طاقت رکھنے والے ملک کے سربراہ ہیں اور وزیر اعظم عمران خان واحد ایٹمی اسلامی ملک کے وزیر اعظم ہیں ، دونوں کو او آئی سی کی غفلت پسند نہیں ہے اور دونوں اس ادارے کو سر گرم اور فعال بنانا چاہتے ہیں ۔حالیہ دنوں میں دونوں نے کوشش تو کی کہ او آئی سی کے ایک فعال گروپ کا اجلاس بلایا جائے جسے سعودی عرب نے ناکام بنا دیا، سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ملک اسرائیل کی بالا دستی چاہتے ہیں جبکہ عمران اور اردوان فلسطین اور کشمیر کو حقوق دلوائے بغیر نہ اسرائیل سے تعلقات بڑھانے کے حق میں ہیں اور نہ بھارت سے۔ان دونوں راہنمائوں کو ایران اور ملائیشیا کی بھرپور معاونت حاصل ہے اور اگر تیل کی دولت سے مالامال ملک بھی اپنے ضمیر کو بیدار کریں اور امریکہ اور مغرب پر انحصار کرنا چھوڑ دیں تو پسے ہوئے مسلمانوں کو انصاف بھی مل سکے گا اور ان پر ظلم و ستم بھی ختم ہوگا اور وہ عزت اور آبرو سے اقوام عالم کے شانہ بشانہ زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں گے ، بہر حال عمران اور اردوان اس مشن پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب وہ اپنے مقصد میںسرخرو ہوجائیں گے ۔ انشاء اللہ