پاکستان 1949ء سے خاص طور پر 5 جون کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے قرارداد کی منظوری کے بعد سے طوطے کی طرح مسلسل ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہے کہ تنازعہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کروجبکہ بھارت اس وقت سے ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پائوںتلے روند کر اس مقتدر عالمی ادارے کی توہین کرتا چلا آرہا ہے اور یہ مقتدر عالمی ادارہ اپنی اس توہین پر مسکرانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کررہا تو آخر پاکستان کب اپنی فوجوں کو حرکت میں لائے گا جب کشمیر کا بچہ بچہ کٹ مرے گا؟
جب کشمیر کا بچہ بچہ آزادی کے خواب دیکھتا دیکھتا پیوندِ خاک ہوچکا ہوگا، اگر کشمیریوں کے خاتمے کے بعد پاکستان کے سیاسی و عسکری حکام کو غیرت آبھی گئی تو کس کام کی؟ آخر ہم ہاتھوں میں چوڑیاں پہن کر کیوں بیٹھے ہیں اور اس میں ہماری عسکری قیادت کا کوئی قصور نہیں کیونکہ وہ تو سیاسی حکومت کے حکم کی محتاج ہے یہ تمام قصور سراسر سیاسی حکومت کا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ماضی کے حکمران بزدل تھے تو آج تو بہادر اور شیر دل عمران خان کی حکومت ہے تو عمران خان کیا کر رہے ہیں یہ ماضی کے حکمرانوں سے بھی زیادہ امن پسند بنے ہوئے ہیں انہوں نے فیصلہ دے دیا ہے کہ اگر کوئی کشمیری جذبات میں آکر کنٹرول لائن عبور کرے گا تو وہ کشمیریوں کی بھلائی نہیں بلکہ دشمنی کرے گا کیونکہ بھارت پھر سارے کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دے گا، سوال یہ ہے کہ اب ہم سارا ملبہ بھارت پر ڈال کر اس کا کیا بگاڑ رہے ہیں اگر کشمیری کنٹرول لائن عبور کرکے بھارتی فوجوں پر حملے کریں تو بھارت کیا کرلے گا؟
اس وقت نہتے کشمیری آر ایس ایس کے مسلح غنڈوں کا مقابلہ کررہے ہیں اور ان نہتے کشمیریوں کی مدد کرنا دنیا بھر کے ہر انصاف پسند پر لازم ہے لیکن جب کشمیر کا حامی پاکستان ہی سوائے زبانی باتوں کے کچھ نہیں کررہا تو پھر دنیا کو کیا پڑی، ہم اسلامی دنیا کی شکایت کرتے ہیں سوال یہ ہے کہ کشمیر کا دعویدار پاکستان کیا کررہا ہے؟ جب ہم کشمیری بھائیوں کی عملی مدد کریں اور اسکے بعد بھی اسلامی دنیا خاموش تماشائی بنی رہے تو پھر ہمارا شکایت کرنا مناسب ہوگا جب ہم خود ہی ہاتھ پر ہاتھ رکھے کشمیریوں کی صرف زبانی کلامی یعنی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد کا راگ الاپتے رہیں گے اور نیرو بن کے چین کی بانسری بجاتے رہیں گے تو کشمیر تو روک کی طرح شعلوں میں گھرا ہی رہے گا پھر حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں اور اسلامی دنیا سے کیسی شکایتیںٖ؟ پہلے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا اور دنیا کو ایٹمی حملے سے بچائو کا بہانا ترک کرنا ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کو ایٹمی تباہی سے بچانا صرف ہماری ہی ذمہ داری ہے، جب عالمی طاقتیں اس بارے میں سوچ کرہلکان نہیں ہوررہیں اور بھارت کو من مانی کارروائی کرنے کی کُھلی چھوٹ دے رہی ہیں تو ہم کیوں عالمی امن و سلامتی کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔ادھر بھارت ہے کہ مسلسل پھیلتا ہی چلا جارہا ہے۔ پہلے اس نے اپنے آئین میں تبدیلی کرکے کشمیر کے آزاد ریاست کے سٹیٹس کو ختم کیا اور اس کو بھارت کا حصہ بنا لیا ہم دنیا کو ایٹمی تباہی سے بچانے کے لئے خاموش رہے، پھر بھارت نے مقبوضہ وادی میں آر ایس ایس کے غنڈے فوجی وردیوں میں ملبوس داخل کئے وہ کشمیری خواتین اور بچوں کو مسلسل دہشت گردی کا نشانہ بناتے رہے۔ ہم عالمی امن کی خاطر خاموش رہے، پھر بھارت نے وہاں کرفیو نافذ کرکے بنیادی سہولتیں ختم کردیں ہم زبانی حمایت کا یقین دلاتے رہے، ہم راتوں کو اپنے نرم و گرم بستروں میں دبک کرسوتے رہے اور کشمیری عوام کرفیو کی وجہ سے ایندھن کا انتظام نہ کرسکے اور راتوں کو ان کے بچے سردی میں ٹھٹھرتے رہے، پھر بھارت نے مبقوضہ کشمیر کے اہم مقامات کے نام بدلنا شروع کردئیے سری نگر کا نام شِو نگر رکھ دیا اور ہماری ملی غیرت ایٹمی جنگ کے خوف سے سوئی رہی۔ کہاں ہیں وہ مسلمان جو ایک لڑکی کی پکار پر سیکڑوں میل کا سفر طے کرکے سندھ سے ہوتے سومنات کے مندر پر حملہ آور ہوئے تھے، ہم جس بے حسی اور بے مروتی کا مظاہرہ کررہے ہیں تو اس سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا جذبہ جہاد اور شوق شہادت صرف کہانیوں کے قصے ہیں۔
ہما رے حکمرانوں میں خواہ زرداری ہو یا نواز شریف یا پھر عمران خان ان میں نہ جذبہ جہاد ہے نہ شوق شہادت یہ کہانیوں کی باتیں ہیں عملی زندگی میں ہمیں اللہ کا نہیں ایٹمی اسلحہ کا خوف ہے، ہم ایٹمی جنگ کے خوف میں مبتلا اپنے حقوق چھوڑتے چلے آرہے ہیں اور ایک دن کشمیر کو بھی بھول جائیں گے کیونکہ یہاں زندہ رہنے کا حق انہیں ہی ہے جو بھارت کے ریاستی دہشت گردوں کی مانند ہر خوف سے آزاد ہوکر جو چاہیں کر گزریں، وہی دنیا میں شہرت بھی پاتے ہیں اور اپنی قوم کو مفاد بھی پہنچاتے ہیں ہم صرف زبانی کلامی باتیں کرسکتے ہیں اور کچھ نہیں، کیونکہ اس وقت اگر کشمیر کو دیکھیں تو بھارتی فوج نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی تازہ کارروائی کے دوران منگل کے روزضلع گاندربل میں مزید2 نوجوانوں کو شہید کردیا جس سے مقبوضہ علاقے میںگزشتہ48گھنٹے کے دوران شہید ہونے والے نوجوانوںکی تعداد بڑھ کر 4ہوگئی ہے۔ قابض فوج نے نوجوانوں کو ضلع کے علاقے گنڈ میں تلاشی اور محاصرے کی ایک کارروائی کے دوران شہید کیا۔ اس سے قبل فوج نے گزشتہ روز ضلع بانڈی پورہ میں 2 نوجوانوںکو شہید کردیا تھا۔ مقبوضہ وادی کشمیر اور جموںاور لداخ کے مسلم اکثریتی علاقوں میں آج مسلسل 100ویں روز بھی بھارت کی جانب سے جاری فوجی محاصرے اور مواصلاتی ذرائع کی معطلی کی وجہ سے معمولات زندگی بدستور مفلوج رہے۔
مسلمانو! اللہ کا خوف کرو سوا تین مہینے سے زیادہ عرصہ ہوگیا، ایک سو ایک دن ہوگئے کشمیری گھروں میں مقید ہیں‘ ہم نہیں جانتے ان کے پاس کھانے کو کچھ ہے یا گھروں میں بھوک و پیاس سے نڈھال یکے بعد دیگرے مرتے جارہے ہیں، کشمیریوں کے لئے تو قیامت برپا ہوگئی انہیں کسی ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں کا خوف ہے نہ بھارتی فوج کے غیر انسانی مظالم کا، وہ جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں یہ احتیاطیں بھی صرف ہمارے حصے میں آئی ہیں اور ہم دشمن کے نہیں بلکہ اپنی احتیاطوں کے ہاتھوں شکست خوردہ ہیں اور بھارت مقبوضہ علاقے میں اہم عمارتوں ، ہسپتالوں، ہوائی اڈوں، کرکٹ اسٹیڈیمزاور شاہراہوں کے نام آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیڈروں کے نام سے منسوب کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، اس سلسلے میںحتمی فیصلہ 15نومبر تک متوقع ہے۔ بین الاقوامی کنونشن سینٹر، انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ، سری نگر پارک کرکٹ اسٹیڈیم اور انڈور اسٹیڈیم سمیت متعدد مقامات، جو بھارت نواز شیخ عبداللہ کے نام سے منسوب ہیں، کے نام تبدیل کرنے پر غور جاری ہے۔ اور ہم کیا کررہے ہیں ؟ قالو انا اللہ و انا الیہ راجعون۔ ( ختم شد)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024