نئی حلقہ بندیوں کیلئے آئینی ترمیم میں تاخیر‘ عام انتخابات کے التواء کا خدشہ
اسلام آباد(نوائے وقت نیوز)نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیم اگر سینیٹ سے منظور نہ ہوئی تو الیکشن میں تاخیر ہوگی، آئین میں مسئلے کا حل موجود نہیں، لیکن سپریم کورٹ پارلیمنٹ یا عبوری حکومت کی مدت میں اضافہ کر سکتی ہے۔الیکشن کمشن آف پاکستان کے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پارلیمنٹ کے روبرو پیش کیا جانے والا مجوزہ حل قبول نہ کیا گیا تو ائندہ عام انتخابات میں تاخیر کا اندیشہ ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں سپریم کورٹ ہی فیصلہ کر سکتی ہے کہ موجودہ حکومت یا پھر اْس عبوری حکومت کی مدت میں اضافہ کیا جائے جو موجودہ حکومت کی مدت مکمل ہونے کے بعد معاملات سنبھالے گی۔’حلقہ بندیوں کی آئینی ترمیم کیلئے مشترکہ مفادات کونسل سے منظوری آئینی تقاضا ہے‘ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ اس سے قبل الیکشن کمشن کو اس طرح کی صورتحال کا سامنا کبھی نہیں کرنا پڑا جہاں مردم شماری آئندہ عام انتخابات سے عین قبل منعقد کرائی گئی ہو۔دوسری جانب آئین میں بھی ایسی صورتحال سے نمٹنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں۔ ایسے میں الیکشن کمشن تو پریشان ہے ہی، حکومت اور اپوزیشن جماعتیں بھی بروقت الیکشن کے لیے آئینی ترمیم کے معاملے پر تقسیم نظر آتی ہیں۔اگرچہ قومی اسمبلی نے آئینی ترمیم کی منظوری دے دی ہے لیکن مطلوبہ تعداد (دو تہائی اکثریت) نہ ہونے کی وجہ سے اسے سینیٹ نہیں بھیجا جا رہا۔آئین کے ارٹیکل 51کی شق 5کے مطابق، قومی اسمبلی میں نشستیں سرکاری طور پر شائع شدہ آخری مردم شماری کے مطابق متعین کی جائیں گی۔’نئی حلقہ بندیوں کے لیے 10 نومبر تک آئینی ترمیم ضروری‘ اسی شق کا حوالہ دیتے ہوئے الیکشن کمشن نے رواں برس اگست میں حکومت پر واضح کردیا تھا کہ رواں سال ہونے والی چھٹی مردم شماری کے عبوری نتائج کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں کی تعداد میں اضافہ یا ری ایلوکیشن کی جائے۔ اس سلسلے میں 22 اگست 2017 کو منظور کیے گئے الیکشن ایکٹ 2017 کے چیپٹر سوم کے تحت الیکشن کمشن آف پاکستان کو حلقہ بندیوں کا کام کرنا ہے۔واضح رہے کہ اسی قانون کے سیکشن 17(2) کے مطابق ہر مردم شماری کے بعد الیکشن کمشن نئی حلقہ بندیاں کرنے کا پابند ہے۔