آلودگی…اس کا حل
جب خوبصورت پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شے خوبصورت تھی یا خوبصورت لگتی تھی ۔ شہر، قصبے، گاؤں، ندی نالے، چشمے، نہریں، ندیاں، دریا، پہاڑ، سڑکیں، کچے پکے راستے پگڈنڈیاں اور کھیت ، سب کچھ حسین تھا ۔ ماحول، صاف ستھرا، موسم اپنے وقت پر بدلتے، کسان وقت پر بوتے وقت پر کاٹتے۔ سب کچھ فطرت کے اصولوں کے مطابق ہو رہا تھا ۔ اس لیے خدا خوش اور بندے بھی خوش تھے۔ اب سات دہائیاں گزرنے کے بعد افسوس کہ پاکستان اب وہ نہ رہا جیسا کہ پیدائش کے وقت تھا۔ یوں لگتا ہے، خدا ہم سے ناراض ہو گیا ہے۔ نہیں، بلکہ ہم نے اپنی کارستانیوں کی وجہ سے خدائے لم یزل کا ناراض کیا ہے۔ اللہ کے بنائے ہوئے اٹل اورابدی اصولوں کے توڑنے کے نتائج تو سامنے آنے ہی تھے! اس لیے اب پاکستان کی فضائیں زہریلی ہو چکی ہیں۔ صاف شفاف ہوا آلودہ ہو چکی ہے۔ ندیاں چشمے اور دریا ، بد بودار ہو چکے ہیں۔ زہریلی گیسوں اور دھوئیں نے آسمان کے محفوظ خطوں کو پھاڑنا شروع کر دیا ہے۔ خوفناک بیماریاں، تیر رفتاری سے پھیل رہی ہیں۔اور ہم اور ہمارے سیات دان شروع کی طرح آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ یعنی زمین جنبد نہ جنبد گل محمد ۔ سال رواں کی دھند، گزشتہ سال کی دھند سے گہری اور مختلف تھی اس سے پہلے یہ زہر آلود نہ ہوتی تھی۔ اور آئندہ برس اس کے پھیلاؤ اور زہر میں مزید اضافہ ہو گا کیا یہ سب کچھ ایسے ہی ہو رہا ہے ۔ نہیں قدرت کے قوانین اسباب اور علل پر مشتمل ہیں۔ فضا کی آلودگی میں ہم سب ذمہ دار ہیں اس کے پھیلاؤ اور آلودگی کے بیشمار اسباب ہیں جن کا ہر روز اخبارات اور دیگر نشریاتی اداروں سے کیا جاتا ہے۔ درست کہ یہ ایک عالمی مسئلہ بھی ہے۔ لیکن ہم عالمی حالات بدلنے سے قاصر ہیں۔ بہتر ہو گا کہ اپنے گھر پر توجہ دیں اور ایسے انتظامات کریں جن سے یہ ابتر صورتِ حال بہتر ہو سکے۔ اس کے لیے کچھ فوری نوعیت کے اور کچھ طویل المدت منصوبے بنائے جا سکتے ہیں۔
پہلے ذکر کرتے ہیں قلیل المدت منصوبوں کا:۔آج کل گاؤں ، قصبوں اور شہروں تک گاڑیاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ گاڑیوں کا چلنا محال ہو چکا ہے اس بے مہابہ اضافے سے ڈیزل، پٹرول اور گیس کے اخراج ہونے سے فضا اس قدر آلودہ ہو چکی ہے کہ اب ماسک پہننا ضروری قرار دیا جا چکا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ سڑکوں ، شاہراہوں پر، پبلک ٹرانسپورٹ لائی جائے ۔ اور آرام دہ گاڑیاں ایسی ہوں جن میں ناز ک مزاج امیر کبیر لوگ ہی بخوشی سفر کر سکیں۔
ii۔ اندرونِ شہر سفر کے لیے ڈبل ڈیکر بسوں کا اجراء کیا جائے۔ اس عمل سے گاڑیوں، موٹروں وغیرہ کی تعداد میں بے کمی واقع ہو گی۔ اور سڑکوں پر رش بھی کم ہو جائے گا۔۔سکولوں ،کا لجوں،یونیورسٹیوں کو بسیں مہیا کی جائیں تا کہ طالب علم گاڑیوں ، موٹر سائیکلوں کی بجائے بسوں میں سفر کریں۔
iv۔موٹر سائیکل کی تعداد کم کی جائے اور موٹر سائیکل کے چلانے کے لیے کڑے امتحان لیے جائیں۔
سائیکل کو رواج دیا جائے۔ سائیکل سواروں کے لیے سڑکوں پر ٹریک بنائے جائیں۔ کم قیمت لیکن عمدہ سائیکلیں لوگوں میں تقسیم کی جائیں۔ اور ایسی سائیکلیں بھی جو پہاڑی علاقوں میں بھی چلائی جا سکیں۔
vi۔شمسی توانائی، کو رائج کیا جائے اور ان کے پینل سستے کیے جائیں تا کہ انہیں غریب سے غریب شخص خرید کر استعمال میں لا سکے۔
vii۔ملکی سائنسدانوں کو اس مسئلے کے حل کے لیے ترغیب دی جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے انعامات دیے جائیں۔ تا کہ وہ ایسے آلات ایجاد کریں جو آلودگی روکنے میں معاون ثابت ہوں۔ریل گاڑی:سفر کے لیے ریل کے سفر کو عام کیا جائے اور اسے جدید اور آرام دہ بنایا جائے۔ دنیا بھر میں اس سفر کوانتہائی محفوظ سمجھا جاتا ہے اور یہ آلودگی کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ افسوس کہ ہم نے اس محفوظ سواری کو عام کرنے کے لیے مجرمانہ کوتاہی برتی ، موجودہ حکومت نے اس طرف کسی حد تک توجہ دی ۔ تاہم اب بھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
عام آگاہی:آلودگی کو کم کرنے کے لیے نچلی سطح تک لوگوں میں آگاہی مہم شروع کی جائے۔ تا کہ لوگ اس مسئلے کو سمجھ سکیں۔ اور آلودگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔شجر کاری:افسوس کہ اس ملک میں شجر کاری ہر سال کی جاتی ہے لیکن ابھی تک اس کے فوائد نظر نہیں آئے ۔ درخت قدرت کا عطیہ ہیں، مفت آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو درخت لگانے کے فوائد سے آگاہ کیا جائے اور درختوں کو کاٹنا ایک قومی جرم قرار دیا جائے۔اس پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔ ہمارا مذہب بھی درختوں کے قتل عام سے منع کرتا ہے۔ درختوں کی کٹائی روکنے کے لیے علماء بھی اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ شجر کاری بے شک کم کی جائے لیکن جتنی کی جائے وہ نظر آئے۔فیکٹریاں اور کارخانے:فیکٹریوں اور کارخانوں کے زہریلے اخراج سے ندیاں، نہریں، چشمے ، دریا آلودہ ہو چکے ہیں۔اس لیے آبی حیات مر رہی ہے جو فیکٹریاں اور کارخانے زہریلے مواد کی Treatmentنہیں کرتے ان پر نہ صرف جرمانے کیے جائیں بلکہ اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئیں تو ان کا رخانوں فیکٹریوں کو بند کر دیا جائے۔ماحولیات کا محکمہ:افسوس سے کہ ماحولیات کا محکمہ تو ہمارے ملک میں موجود ہے ۔لیکن اس کی عمل داری اور کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس محکمے اور وزیر کو بااختیار کیا جائے اور متحرک کیا جائے تو سال کے اندر اندر اس کے اثرات نظر آنے لگیں گے اور ہمارے آلودہ پانی اپنی اصل حالت کی طرف لوٹنے لگیں گے۔ان قلیل المدت منصوبوں پر اگر آج سے ہنگامی بنیادوں پر عمل شروع کیا جائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ برس فضائی آلودگی میں کافی حد تک کمی واقع ہو چکی ہو گی۔طویل المدتی منصوبوں میں فیکٹریوں ، کارخانوں، اور ندی نالوں کا قریہ قریہ گاؤں گاؤں جائزہ لے کر ان کا حل تلاش کرنا ہو گا۔ فیکٹریوں سے نکلنے والا زہریلا دھواں روکنے کے لیے سائنسی ذرائع اختیار کرنے پڑے گا۔
علاوہ ازیں کارخانوں اور اسپتالوں اور شہروں کا کچرا ٹھکانے لگانے کے لیے مستقل حل تلاش کرنا پڑیں گے۔ملک عزیز سے آلودگی کو جلد از جلد مٹانا انتہائی ضروری ہے اور اگر ہم آلودگی کو نہ مٹا کسے تو آلودگی ہمیں مٹا دے گی۔