کسے وکیل کریں ، کس سے منصفی چاہیں؟
سب سے پہلے قومی اخبارات میںشائع ہونے والی چند سرخیاں ملاحظہ کیجئے۔گنگارام ہسپتال کی راہداری میںفرش پر بچے کی پیدائش۔ لاہور میں خاتون نے رکشہ میں بچے کو جنم دیا۔ سرکاری ہسپتال میں علاج سے انکار ، ایمبولینس میں ایک اور بچے کا جنم۔ گوجر خان ، شرقپور ، دو بچوں کی ایمبولینس میں پیدائش۔ ایمبولینس میں بچے کی پیدائش کا ایک اور واقعہ۔ حیدر آباد ہسپتال جاتے ہوئے خاتون نے رکشہ میں بچے کو جنم دے دیا۔ دھرنا ، ٹریفک نظام متاثر ہونے سے خاتون نے ایمبولینس میں ہی بچے کو جنم دے دیا۔ خاتون کو ہسپتال میں داخل نہ کیا گیا‘ کھلے میدان میں بچے کا جنم‘ دم توڑ گیا۔
درج بالا خبریں حیرانی ، پریشانی اور پشیمانی کا ساماں ہیں مگر ان کے لئے جو دل میں انسانیت کا ذرہ برابر بھی درد رکھتے ہوں۔ تاریخ کا جو ادراک کرتے ہیں ، ان کے مطابق مدینہ کے بعد دوسری نظریاتی ریاست پاکستان ہے جس کے قیام کے لئے اللہ والوں نے سردھڑ کی بازی لگائی یعنی سرتوڑ کوشش کی ، جابر حکمرانوں سے سینہ سپر ہوئے اور دیانت و اخلاص کے ساتھ زندگی گزارنے کا درس دیا۔ دیکھنے والوں نے خواب دیکھا اور اپنی قوم کے دیانتداروںنے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کیا کیونکہ وہ سب اہل درد اور انسانیت کا احساس کرنے والے تھے۔ بلاشبہ ملک پاکستان خداداد ریاست ہے مگر اس کے قیام کا پس منظر مسلم مجاہدین کے ایثار سے مزین ہے۔ انہوں نے جہاد بالنفس ، جہاد بالقلم ، جہاد بالمال اور جہاد بالسیف بھی کیا جس کے نتیجے میں غلامی کی زنجیر یں ٹوٹیں اور آج پاکستانی عوام آزادی کی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ یہ ہمارے مخلص قائدین اور تحریک پاکستان کے مجاہدین کی روداد ہے مگر نکتہ یہ ہے کہ آج ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں ، جہاں ہمیں اس آزاد فضا کی قدر نہیں ، جس کا ادرا ک کرنا ہو تو کوئی مسلمانان کشمیر ، فلسطین اور برما سے پوچھے۔
مذکورہ بالا سرخیاں جب نظر سے گزریں تو یوں محسوس ہوا جیسے میں کسی حیرت کدے میں ہوں جہاں عالی شان محلات ، عمارتیں ، بنگلے اور کوٹھیاں موجود ہیں ، سرسبز باغات ہیں، خوبصورت پہاڑ ہیں ، چوڑی سڑکیں اور ان پر گاڑیاں فراٹے بھر رہی ہیں۔ میٹرونامی بسوں کی یلغار ہے ۔ کوئی کسی کا نہیں، سب اپنی خاطر جی رہے ہیں گویا دور فطن کا سماں ہے۔ میں اس وادی میں سرگرداں تھا۔ جہاں بھی جاتا لوگوں کی بھیڑ دکھائی دیتی۔ آہ و بکا اس قدر کہ سرچکرا جائے۔ ہجوم بارے استفسار کیا تو معلوم ہوا یہ لوگ زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ میری حیرت میں اضافہ ہوا، ظاہر بات ہے حیرت کدے میں یہ تو ہونا ہی تھا۔ وہ سب ہجوم ہسپتالوں کے باہر تھے۔ بچے اوربڑے قطار در قطار کھڑے تھے اور کہیں عورتوں اور بوڑھے حضرات کا جمگٹھا تھا ۔ سرکاری ونجی ہسپتالوں کی رام کہانی بہ زبان عوام تھی۔ کہانی کا متن سناتے عورتیں بین کررہی تھیں، بچے چلا رہے تھے ، بوڑھے سینہ کوبی میں مشغول تھے اور نومولود بچوں کی آمد آمد یوں تھی کہ سڑکوں ، چوراہوں ، راہداریوں اور گاڑیوں میں زندگی جنم لے رہی تھی۔ میں دم بخود رہ گیا ، سانس لینا جیسے دشوار ہو گیا ہو ۔ رعشہ طاری ہوا تو مختلف آوازیں گونجنے لگیں۔ میں ان آوازوں کے گرداب میں تھا، وہ آوازیں کچھ یوں تھیں۔ درد کے مارے کہاں جائیں ، بنیادی صحت مراکز ناپید ہیں اور اگر کہیں ہیں بھی تو معالجین عدم موجود ہیں۔ اگر معالجین میسر ہیں تو مریضوں کے داخلے پر ناخوش اور ان کے علاج سے انکاری ہیں۔ فرض شناس اور مخلص معالجین تو کب کے گزر گئے، اللہ انہیں غریق رحمت کرے۔
ہسپتالو ں میں زچگی کی ناکافی سہولیات کے باعث کاغذات میں جائے پیدائش کے طورپر کسی راہداری، چوراہے ، رکشہ یا کسی ایمبولینس کا نام لکھا جاتا ہے۔ معالجین اور انتظامیہ کی لاپرواہی اور بے حسی نے لوگوں کو چوراہوں پر لاکھڑا کیا ہے۔ ان آوازوں کے ساتھ اچانک ایک تصویر یعنی منظر بھی دکھائی دیا۔ بھلے وقتوں میں میت کو غسل دینے کی خاطر کسی چادر یا کپڑے سے عارضی پرد ہ بنایا جاتا تھا۔ میرے سامنے کے منظر میں بھی بالکل اسی طرح چند عورتیں چادروں سے پردہ بنائے چہ میگوئیاں کررہی تھیں۔ اسی اثناء ایک نومولود کے رونے کی آواز آئی، میں سمجھ گیا کہ ایک ماں نے چوراہے میں بچہ جنم دے کر قوم کا قرض اتارا ہے۔ میں وادی میں چلتا گیااور اس طرح کے کئی مناظر آنکھوں کا ساماں ہوتے گئے گویا چہرے بدل رہے تھے مگر کہانی اور منظر وہی تھا جبکہ اس کے پس منظر میں چند افراد کلف زدہ سفید لباس اور کالی واسکٹیں پہنے ملکی سیاست میں اتار چڑھائو اور فلاحی ریاستی پالیسی پر بحث کر رہے تھے۔ ہر کسی کی زبان پر تھا کہ میں یہ منظر بدل ڈالوں گا ، ضرور بدل ڈالوں گا ۔ وہ سب مے کدے میں تھے جب کہ میں حیرت کدے کی گہرائیوں میں ڈوبتا چلا جا رہا تھا۔ میں نے منظر بدلنا چاہا تو ایک اور منظر نمودار ہوا۔ چند لوگ سفید کوٹ پہنے ، سرنجیں ،قینچیاں اور دیگر جراحی آلات استعمال میں لاتے ہوئے، جراحت کے دوران میں مریضوں کے اعضا نکال رہے تھے۔ اس کے بعد ایک اور منظر سامنے آیا۔ چند افراد کالے رنگ کے کوٹ پہنے ہوئے تھے جن سے لوگ انصاف کی بھیک مانگ رہے تھے جبکہ کالے کوٹ کی قیمت بتائے جانے پر سائلین کی آنکھوں کے پپوٹے نکل آئے تھے۔میں نے سفید اور کالے کوٹ سے پہلو تہی کرتے کسی وردی میں ملبوس فرد اور منظر بارے سوچا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک تھانیدار لوگوں کی چمڑی ادھیڑ رہا تھا اور سراپا احتجاج تھا کہ جرائم کی شرح گھٹ جانے کے باعث میری ’’ماہوار‘‘کی کمی کے ذمہ دار تم سب لوگ ہو۔ یکے بعد دیگرے مناظر بدل رہے تھے۔ مجھے ان تمام مناظر نے بے چین کر دیا تھا۔ میں اچانک وہاں سے بھاگا اور حیرت کدے کی حدود پار کر ہی رہا تھا کہ سامنے ایک اور حیرت کدہ میرا منتظر تھا، وہی سفیداور کالے کوٹ اور وردی میں ملبوس افراد کا جم غفیر تھا۔۔۔مجھے ٹوٹ کر احساس ہواتھا کہ مجاہدین تحریک پاکستان کی ارواح بھی صدیوں کی روایت بدل جانے پر اس حیرت کدے میں حیرت کناں تھیں کہ چادروں سے عارضی پردہ بنائے لوگ کھڑے ہوں تو سمجھ جائیے کہ یہ کوئی میت یا تجہیز و تکفین کا عمل نہیں بلکہ ایک نئی زندگی جنم لے رہی ہے۔