والد کی شان و حشمت
مکرمی : صاحب! ''مجھے تین سو روپے کی ضرورت ہے''یہ الفاظ تھے ایک بوڑھے والد کے، جو ملتجیانہ نظروں سے اپنے جوان بیٹے کو دیکھ رہا تھا’’اب پھر کیا کرنا ہے پیسوں کا؟جب دیکھو پیسے مانگتے رہتے ہو، کمانا کوئی آسان کام ہے‘‘بیٹے نے کرخت لہجے میں پوچھا۔لہجے کی تلخی سے دل دہل کر رہ گیا۔وہ کھا جانے والی نظروں سے باپ کو دیکھ رہا تھا باپ کی نگاہیں بیٹے کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔وہ حیرت کا بت بنے بیٹھا ہوا تھا۔ شاید اسے دوا خریدنا تھی۔میری وہاں موجودگی اس کے لیے مزید شرمندگی کا باعث بن رہی تھی۔جس بیٹے کے لئے زندگی کے قیمتی ماہ و سال محنت، مزدوری میں کھپا دیے، جس کی آسائش و آرائش، تعلیم و تربیت کے لیے اپنی توانائیاں صرف کیں، جس کے کل کے لیے اپنا آج قربان کیا بیٹے کا کرخت لہجہ باپ کے دل کو پارہ پارہ کرگیا۔حسرت و یاس سے بھرپور چہرہ دیکھ کر آقائے کل جہاںؐ کی پاکیزہ محفل کا وہ منظر یاد آگیا، جو امام قرطبی ؒ نے اپنی مشہور تفسیر الجامع لاحکام القرآن میں نقل کیا ہے۔ایک نوجوان پیارے پیغمبرصلی علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ میرے باپ نے میرا مال لے لیا ہے۔آپ صلی علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جاؤ اپنے والد کو بلا کر لاؤ‘‘۔اُدھر وہ بلانے گیا، اِدھر جبرئیل امین تشریف لائے اور رسول صلی علیہ وسلم سے عرض کیآقا! جب اس نوجوان کا باپ آجائے تو آپ صلی علیہ وسلم اس سے پوچھیے گا کہ، وہ کون سے کلمات ہیں، جو اس نے دل میں کہے ہیں؟ اور ایسے کہے ہیں کہ خود اس کے کانوں نے بھی انہیں نہیں سنا۔جب یہ نوجوان اپنے والد کو لے کر محفل میں حاضر ہوا، تو حضور ؐنے والد سے کہا، ’’کیا معاملہ ہے؟آپ کا بیٹا آپ کی شکایت کرتا ہے، کیا آپ اس سے اس کا مال چھیننا چاہتے ہیں؟والد نے عرض کی، ’’آقا! آپ یہی سوال اسی سے پوچھیے، کہ میں اس کے مال میں سے اس کی پھوپھی، خالہ یا اپنی ذات کے سوا کہاں خرچ کرتا ہوں‘‘؟رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے تسلیم کرتے ہوئے فرمایا، ’’اب حقیقت واضح ہو چکی ہے، لہذا اب مزید کچھ کہنے، سننے کی ضرورت نہیں‘‘۔اس کے بعد حضورؐ نے دریافت کیا کہ وہ کون سے کلمات ہیں، جو تو نے دل میں کہے ہیں، جن کو ابھی تیرے کانوں نے بھی نہیں سنا۔اس شخص نے عرض کی، ’’یارسول اللہ ہر معاملے میں ہمارا آپ پر ایمان و یقین بڑھا دیتے ہیں یعنی جو بات کسی نے نہیں سنی، حتی کہ اپنے کانوں نے بھی نہیں سنی، اس کی آپ کو معجزانہ طور پر اطلاع ہوگئی۔پھر اس نے اپنی بات شروع کی، کہنے لگا،’’یہ ایک حقیقت ہے کہ میں نے چند اشعار دل ہی دل میں کہے تھے، جن کو میرے کانوں نے بھی نہیں سنا‘‘۔
آپ صلی علیہ وسلم نے فرمایا،’’وہ اشعار ہمیں بھی سناؤ‘‘۔اس نے اشعار سنانا شروع کیے، اصل لطف تو عربی میں ہی ہے، لیکن یہاں ان کا اردو میں مفہوم نقل کیے دیتا ہوں۔میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور جوان ہونے کے بعد بھی تمہاری ذمہ داری اٹھائی، تمہارا کھانا پینا سب میری ہی کمائی سے تھا۔جب کسی رات میں تمہیں کوئی بیماری درپیش ہوئی، تو تمہاری بیماری کی وجہ سے میں نے تمام رات بیقراری اور بیداری میں گزاری۔یوں لگتا جیسے گویا تمہاری بیماری تمہیں نہیں، مجھے لگی ہے، اور میری آنکھیں برستی رہیں۔میرا دل ہمہ وقت تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا، باوجودیکہ مجھے یہ معلوم تھا کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے۔
پھر جب تم عمر کے اس حصے اور حد تک پہنچ گئے، جس کی مجھے تجھ سے تمنا رہتی تھی۔
تو تم نے میری محنتوں کا صلہ سختی اور سخت کلامی بنا دیا، گویا صرف تم ہی مجھ پر احسان و انعام کررہے ہوکاش! تم سے اگر میرے باپ ہونے کا حق ادا نہیں ہو سکتا تھا، تو کم از کم ایسا ہی کرلیتے، جیسا ایک شریف پڑوسی سلوک کیا کرتا ہے۔تو کم از کم مجھے پڑوسی کا حق تو دے دیا ہوتا اور خود میرے ہی مال میں سے میرے حق میں بخل سے کام نہ لیا ہوتا۔ اشعار سننے کے بعد رسول اللہ ؐنے نوجوان فرمایا،(تو بھی اور تیرا مال بھی سب تیرے باپ کا ہے)یہ واقعہ سبق ہے نوجوان نسل کے لیے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بوڑھے باپ نے ہمارے لیے کیا کیا۔ اولاد جوان ہونے کے بعد باپ کی محنت و مشقت اور مہربانیاں بھول جاتی ہے۔ جوان بیٹا ہاتھ آئی دولت پر اپنا حق یوں جتلاتا ہے، جیسے صرف اسی کے خون پسینے کی کمائی ہے۔( صباء عروج ، ائیر یونیورسٹی اسلام آباد)