پاکستان کی موجودہ حکومت غالباً Utopia میں رہتی ہے یہی سبب ہے کہ بغیر سوچے سمجھے‘ سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لئے بغیر ایسے عجیب وغریب فیصلے کئے جا رہے ہیں کہ عام انسان کی عقل حیران و پریشان ہے کہ جمہوریت کے نام پر عوام سے یہ کس قسم کا انتقام لیا جا رہا ہے۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے گندم کی امدادی قیمت ڈبل کر کے غریبوں کے منہ سے آدھی روٹی چھین لی تھی‘ لیکن اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بھی آئندہ آنے والی فصل کی قیمت 12 سو روپے مقرر کر کے نہ صرف مزید آدھی روٹی چھین لی ہے بلکہ مہنگائی کے ایک نئے سیلاب کا دروازہ بھی کھول دیا ہے۔
فلور ملز ایسوسی ایشن کے پرانے صدور اور فاﺅنڈرز گروپ کے چیئرمین اور کوچیئرمین ڈاکٹر بلال صوفی اور خلیق ارشد نے اس سلسلہ میں اپنے ساتھیوں حاجی مقصود‘ مجاہد خورشید‘ عبدالستار‘ شیخ فیاض اور احمد شہزاد کے ساتھ لاہور پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس بھی کی۔ بعد میں دونوں نے نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وفاقی حکومت کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے سٹیک ہولڈر کی مشاورت کے بغیر انتہائی غیردانشمندانہ فیصلہ کیا ہے اور اگر یہ فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو محرم کے بعد اس کے خلاف احتجاجی تحریک بھی چلائی جائے گی۔
ڈاکٹر بلال صوفی نے بتایا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد زرعی اجناس کی قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار صوبوں کے پاس آ گیا ہے‘ اس لئے گندم کی امدادی قیمت کا تو وفاق کے پاس اختیار ہی نہیں ہے‘ ویسے بھی وفاقی حکومت کو فیصلہ کرنے سے پہلے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا چاہئے تھا۔ اس غیردانشمندانہ فیصلے کے پاکستانی معیشت پر مفی اثرات مرتب ہوں گے۔ جہاں وقتی طور پر گندم کے کاشتکار خوش ہوں گے وہیں دوسرے فریق جو اس بزنس سے وابستہ ہیں خسارے میں چلے جائیں گے۔
بظاہر تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے گندم کی قیمت میں اضافہ انتخابات میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے لئے کیا گیا ہے لیکن اگر حققیت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ دراصل حکومت پاکستان نے پاکستانی کاشتکاروں اور صوبائی حکومتوں اور عوام کو نقصان پہنچانے کے علاوہ پاکستان میں انڈین گندم اور آٹے کے آنے کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اس وقت بھارت کے پاس اسی ملین ٹن فالتو گندم موجود ہے۔ وہاں بھی نئی فصل تیار ہو رہی ہے لیکن اس نے تو گندم کی قیمت خرید میں کوئی اضافہ نہیں کیا ہے وہاں سولہ سو روپے کی سو کلو گندم کا ریٹ ہے جس کا موازنہ اگر گندم کی نئی قیمت خرید سے کیا جائے تو پاکستان کی گندم بھارت کی گندم سے آٹھ سو روپے (سومن) مہنگی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے منافع پرست فوراً بھارتی گندم درآمد کریں گے جس کے پیچھے پیچھے بھارتی آٹا بھی چلا آئے گا جس کی وجہ سے پاکستانی گندم گوداموں میں بند ہو جائے گی اور کیونکہ صوبائی حکومتیں بنکوں سے سود پر رقم حاصل کر کے ایڈوانس گندم خریدتی ہیں اس لئے سود اور قرضوں کا بوجھ بھی بڑھ جائے گا جو عوام کو الگ ادا کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف گندم کی عالمی مارکیٹ میں پچھلے سال امریکہ‘ آسٹریلیا اور روس کی فصلیں خراب ہونے اور پاکستانی گندم کی قیمت قابلِ قبول ہونے کی وجہ سے عالمی منڈیوں میں ہم نے گندم ایکسپورٹ کر کے ایک نئی مارکیٹ بنا لی تھی‘ لیکن وفاقی حکومت کے اس غیر دانشمندانہ فیصلے سے پاکستان کے ہاتھ سے گندم کی مارکیٹ نکل جائے گی اور قیمت کی وجہ سے پاکستانی گندم بین الاقوامی مارکیٹ میں قابل قبول نہیں ہو گی۔ یہی کیفیت افغانستان کی مارکیٹ کی ہو گی۔
خلیق ارشد نے اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ فیصلہ کرنے سے پہلے کم از کم سٹیک ہولڈرز کو تو اعتماد میں لیا جاتا۔ کاشتکاروں کو مالی فائدہ پہنچانے کا یہ طریقہ بالکل غلط ہے۔ اگر حکومت کاشتکاروں کو فائدہ پہنچانا چاہتی تھی تو اسے چاہئے تھا کہ کھاد‘ بیج اور ڈیزل پر سبسڈی دیتی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کسان کو بلیک میں خریدنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان میں اس مرتبہ بھی گندم کی بھرپور فصل ہو گی لیکن امدادی قیمت میں اضافے سے یہ گندم گوداموں میں پڑی رہ جائے گی۔ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ گندم کی امدادی قیمت میں کیا جانے والا اضافہ فوراً واپس لیا جائے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024