برطانیہ میں بسنے والے لاکھوں پاکستانیوں کے دل ہر وقت پاکستان کے لئے دھڑکتے ہیں۔ برطانوی شہری ہونے کے باوجود ہر پاکستانی اپنے آپ کو پاکستانی کہلوانے اور پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات پر ہر پاکستانی پریشان ہے۔ گذشتہ دنوں میرا کالم ”شہر قائد کو امن کا گہوارہ بنائیں“ شائع ہوا۔ اس کالم کے جواب میں نہ صرف برطانیہ بلکہ امریکہ، فرانس، ڈنمارک اور کینیڈا سے بے شمار پاکستانیوں کی ای میلز موصول ہوئیں۔ اس کے علاوہ ریکارڈ تعداد میں شہر قائد کراچی سے بھی ای میلز موصول ہوئیں اور ان ای میلز کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ان ای میلز میں کم و بیش ہر کسی نے اس بات پر افسوس کا اہار کیا کہ گذشتہ چار سالوں سے موجودہ حکومت کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی ہے اور خاص طور پر موجودہ حکومت کراچی میں امن و امان قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہو گئی حتیٰ کہ قومی سلامتی کے محافظ رحمن ملک جن کے ہاتھ میں پوری قوم کی سلامتی سپرد کر دی گئی ہے وہ خود اب سیکورٹی رسک بن چکے ہیں اور کسی طور بھی قومی سلامتی ان کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہے۔ بہت سارے پاکستانیوں کا خیال ہے کہ رحمن ملک جو برطانوی شہری ہوتے ہوئے اپنی برطانوی شہریت چھوڑنے کا اعلان کرکے قوم کو بے وقوف بنا چکے ہیں انہیں وزارت داخلہ کا کرتا دھرتا بنا کر پاکستان کو اندھے غار میں دھکیل دیا گیا ہے۔ پورے ملک میں اور خاص طور پر کراچی میں امن و امان قائم کروانے میں رحمن ملک مسلسل ناکام چلے آ رہے ہیں۔ صدر مملکت کی کون سی ایسی مجبوری ہے کہ وہ ان ہی کو قومی سلامتی کا محافظ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ چار سالہ دور حکومت کے دوران آصف علی زرداری کی حکومت کو اپنے حکومتی اتحادیوں کے سامنے گٹھ جوڑ میں یقیناً رحمن ملک کا خفیہ مشن ہر بار کامیاب رہا ہے۔ ایم کیو ایم سے لے کر اے این پی، مسلم لیگ (ق) اور پھر مولانا فضل الرحمن تک پاور ڈپلومیسی میں ان ہی کا کردار رہا ہے جبکہ کراچی مسلسل آگ میں سلگتا چلا آ رہا ہے۔ رحمن ملک کی قابلیت، اہلیت اور وزارت داخلہ چلانے کی صلاحیت سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ آئی ایس آئی کو ان کے حوالے کرنے کا منصوبہ بروقت ناکام ہو گیا ورنہ نجانے پاکستان کے عسکری ادارے کن حالات سے دوچار ہوتے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ بڑی واضح ہے کہ حسین حقانی اور رحمن ملک دونوں ہی امریکی سی آئی اے کے علاوہ برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی 5 کی گڈ بکس میں ہیں۔ ان دونوں خفیہ ایجنسیوں سے ان کے رابطے اقتدار میں آنے سے قبل ہی برقرار ہیں۔ حسین حقانی نے امریکی آقاﺅں کے ساتھ مل کر ماضی میں پاکستان کے عسکری اداروں کے ساتھ جس کھلواڑ کا پروگرام بنایا تھا اس کی حقیقت بھی پوری قوم جانتی ہے اب رحمن ملک جس حساس ادارے کے سربراہ ہیں اس ادارے میں ایف آئی اے اور انٹیلی جنس بیورو دونوں ہی ان کی نگرانی میں کام کرتے ہیں۔ انتظامی طور پر پاکستان رینجرز بھی وزارت داخلہ کی ہدایات کے تحت کراچی میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں انٹیلی جنس کا ادارہ اور پاکستان رینجرز مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں باقی رہی پولیس تو اس میں چونکہ مخصوص سیاسی پارٹیوں کا اپنا اثر و رسوخ اور سیاسی مداخلت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ سندھ پولیس مفلوج ہو کر قانون کی حکمرانی قائم کروانے کی صلاحیت کھو چکی ہے۔ ان تمام حالات کی ذمہ داری رحمن ملک پر عائد ہوتی ہے۔ کراچی میں جو گروپ قتل و غارت گری کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ ان گروپس کو جو جدید اسلحہ فراہم کیا جاتا ہے یہ تمام کا تمام اسلحہ دیسی ساخت کا نہیں ہے بلکہ یہ اسلحہ یورپی ممالک کا تیار کردہ ہے۔ اس اسلحہ کو سمندری راستوں سے کراچی بندرگاہ لایا جاتا ہے۔ جرائم پیشہ گروپس جو مختلف سیاسی پارٹیوں کے پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں اس بارے میں مصدقہ اطلاعات ہیں کہ قبضہ گروپ، بھتہ مافیا اور اغوا برائے تاوان جیسے واقعات میں ملوث جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی مخصوص سیاسی پارٹیوں کے بعض رہنما کرتے ہیں جو کہ ان رہنماﺅں کے سیاسی میدان میں دست و بازو بن کر ہر طرح کا تعاون فراہم کرتے ہیں جن میں مالی تعاون سے لے کر انتخابی عمل میں ووٹ ڈلوانے تک سیاسی پارٹیوں کے لئے کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ ان گروپس کو سیاسی شخصیت جو کہ حکومت کا حصہ ہیں کس طرح ختم کروا سکتی ہیں؟ کراچی کی موجودہ گھمبیر صورتحال میں ہنگامی اور جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی اور عسکری دونوں اداروں کو اب عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کا احترام کرتے ہوئے کراچی میں بلاامتیاز کارروائی کرنی چاہئے اور اس شہر کو پہلے قدم کے طور پر اسلحہ سے پاک کرنا اور سیاسی پارٹیوں میں موجود عسکری ونگ ختم کرکے ان پارٹیوں کے رہنماﺅں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے جس قدر جلد ممکن ہو وزارت داخلہ کسی غیر جانبدار شخصیت کے حوالے کی جائے اور اس وزارت کو مخصوص سیاسی گروہ بندیوں کے تسلط سے آزاد کیا جائے۔ عام انتخابات سے قبل کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے امکانات نظر نہیں آتے۔ ان حالات میں کراچی میں انتخابات کا عمل خونی رنگ اختیار کرے گا اور مزید خون خرابا اس شہر کو برباد کرکے رکھ دے گا۔ ان حالات میں فوری طور پر کارروائی ہو یا آپریشن جو بھی ہو بہرحال اب کراچی میں امن کے لئے حکومتی مشینری کو حرکت میں آنا ہو گا جس میں سیاسی مفادات ہرگز رکاوٹ نہ بنیں۔ اقتدار کی بندر بانٹ کا کھیل بھی اب ختم ہونا چاہئے۔ کراچی پر کسی ایک مخصوص گروہ یا جماعت کی اجارہ داری ہونی ہی نہیں چاہئے ہر پاکستانی کراچی کو اپنا گھر تصور کرتا ہے۔ کراچی کی روشنیاں پورے پاکستان کی روشنیاں ہیں۔ کراچی میں امن رہے تو پورے پاکستان میں امن ہے لہٰذا اب کراچی میں امن بحال کروانے اور اس شہر کو روشنیوں کا شہر بنانے میں قوم کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ شہر قائد میں اب صرف اور صرف سبز ہلالی پرچم لہرایا جائے اور اس کے سائے تلے تمام جماعتیں متحد ہوں۔ تمام نو گو ایریاز فوری طور پر ختم ہونے چاہئیں۔ کراچی کی روشنیاں اور امن بحال ہونے سے یقیناً بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی روح کو سکون ملے گا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38