
آڈیو لیکس انکوائری کمیشن نے اپنی کارروائی پبلک کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی حساس معاملہ سامنے آیا تو ’’ان کیمرہ‘‘ کارروائی کی درخواست کا جائزہ لیں گے۔ سپریم کورٹ کے سینئر پیونی جج مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم انکوائری کمیشن نے گزشتہ روز اپنی کارروائی کا باضابطہ آغاز کیا اور حکومت سے تمام متعلقہ آڈیوز ریکارڈنگ طلب کرتے ہوئے بدھ تک سارا مواد کمیشن کو فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ کمیشن نے متذکرہ آڈیوز کے ٹرانسکرپٹ بھی فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ اس سلسلہ میں کمیشن کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق یہ سپریم جوڈیشل کمیشن نہیں بلکہ انکوائری کمیشن ہے جو سپریم جوڈیشل کونسل کے اختیارات استعمال کریگا نہ کسی فاضل جج کیخلاف کارروائی کررہا ہے۔ کمیشن صرف حقائق کے تعین کیلئے قائم کیا گیا ہے۔ کمیشن کی تمام کارروائی سپریم کورٹ بلڈنگ میں ہوگی۔ کمیشن نے یہ امر بھی واضح کیا کہ کمیشن آڈیوز لیکس سے متعلق تمام افراد کو سمن جاری کریگا‘ انکی حیثیت ملزم کی ہرگز نہیں ہوگی اور انہیں مکمل احترام دیا جائیگا۔ اسی طرح کمیشن بھی ان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ خوش اسلوبی کے ساتھ کمیشن کے روبرو پیش ہونگے اور کمیشن کا احترام بھی ملحوظ خاطر رکھیں گے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ کمیشن آڈیو لیکس سے متعلق جن معاملات کی انکوائری کر رہا ہے وہ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال اور انکے متعلقہ برادر ججوں کے اردگرد ہی گھوم رہے ہیں اس لئے آڈیو لیکس میں موجود کرداروں کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ کے متعلقہ فاضل ججوں کو بھی کمیشن کے روبرو طلب کیا جا سکتا ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں کمیشن کی تشکیل کو ایک درخواست کے ذریعے چیلنج کیا جا چکا ہے۔ اگر کمیشن کی کارروائی کے ساتھ ساتھ عمران خان کی درخواست بھی سپریم کورٹ میں زیرسماعت آتی ہے تو سیاست دانوں کی پیدا کردہ محاذآرائی کے اس ماحول میں سپریم کورٹ کے اندر بھی بدمزگی اور کشیدگی منفی انداز میں اثرپذیر ہو سکتی ہے جو پہلے ہی عدالت عظمیٰ میں موجود ہے۔ اس تناظر میں عدلیہ کے وقار اور حرمت کے پیش نظر مناسب یہی ہے کہ کمیشن کی کارروائی میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہونے دی جائے تاکہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق کمیشن اپنی کارروائی مکمل کرکے حکومت کو رپورٹ پیش کرسکے۔ کمیشن کی کارروائی کے حوالے سے کسی انا کا مسئلہ بہرصورت پیدا نہیں ہونا چاہیے۔