منگل ، 22 شوال 1443ھ‘ 24 مئی 2022ء

لندن میں پی ٹی آئی کا نواز شریف اور مسلم لیگ (نون) کا جمائما کے گھر کے باہر مظاہرہ
محب وطن لوگوں کی طرف سے ہزار بار منع کرنے کے باوجود ہماری سیاسی جماعتوں کے کارکن خدا جانے کس مٹی کے بنے ہیں کہ بیرون ملک اپنے ملک کو بدنام کرنے سے باز نہیں آتے۔ پی ٹی آئی ہو یا مسلم لیگ (نون) دونوں اس وقت ملک کے اندر جو سوانگ رچا رہی ہیں۔ ایک دوسرے کو رسوا کرنے کی پالیسی پر چل رہی ہیں۔ اس سے پاکستانی معاشرے میں نفرت کی جو آگ لگی ہے اس سے ہر طبقہ متاثر ہو رہا ہے۔ یہاں تک بات رہتی تو چلیں درست تھا مگر یہ جو گند ہمارے سیاسی کارکن بیرون ملک اچھال رہے ہیں۔ اس کے سدباب کے لیے بہرحال کچھ نہ کچھ تو کرنا ہو گا۔ گھر میں جو کچھ ہوتا ہے وہ آپس کا معاملہ رہتا ہے باہر جو کچھ ہوتا ہے اسے تماشہ کہا جاتا ہے۔ لوگ یہ سب کچھ ہوتا دیکھ کر ہم پر ہنستے ہیں ہمارا مذاق اڑاتے ہیں۔ پی ٹی آئی یا مسلم لیگ (نون) دونوں کے قائدین ملک سے باہر سیاسی اختلافات کی فلم چلانا بند کرنے کے لیے سختی سے اپنے اپنے کارکنوں کو لگام ڈالیں۔ جمائما کا گھر ہو یا نواز شریف کا، دونوں کے سامنے جو کچھ ہو رہا ہے اس سے بدنامی پاکستان کی ہو رہی ہے۔ یہ سب کچھ جن لوگوں کو خوش کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ وہ اس کا مزہ نہ لیں اس کام کو بند کرنے کا کہیں۔ یوں بیرون ملک سڑکوں پر ایک دوسرے کی ذاتی زندگیوں، گھر کی خواتین پر کیچڑ اچھالنا درست نہیں۔ اس طرح ہم اپنی پست ذہنیت کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں اور لوگ ہم پر ہنس رہے ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭
رستم زماں گاماں پہلوان کے یوم پیدائش پر گوگل کا خراج عقیدت
کیا دور تھا جب برصغیر میں دیسی پہلوانی کا ڈنکا بجتا تھا۔ بڑے بڑے نواب والیان ریاست راجے مہاراجے پہلوانوں کی سرپرستی کرتے تھے اور سارا سال کہیں نہ کہیں کشتی کے مقابلے ہوتے تھے جن میں زور آزمائی کے لیے بڑے بڑے پہلوان اکھاڑوں میں اترتے تھے۔ ان ہی شہ زوروں میں ایک بڑا نام غلام محمد پہلوان عرف گاما پہلوان کا بھی تھا جنہوں نے 144 برس قبل امرتسر میں جنم لیا اور صرف دس برس کی عمر میں جب اس عمر کے بچے ہنستے کھیلتے کھاتے پیتے ہیں ان کے دودھ کے دانت گر رہے ہوتے ہیں، اس جناتی طاقت رکھنے والے بچے نے بڑے بڑے پہلوانوں کو چت کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔ وہ کم و بیش باون برس تک برصغیر کے ناقابلِ شکست پہلوان رہے انہیں بیرون ملک بھی کوئی پہلوان زیر نہ کر سکا۔ جس کی وجہ سے انہیں رستم زمان کا خطاب ملا۔ ان کے بعد ان کے خاندان میں کئی اور نامی گرامی پہلوان بھی پیدا ہوئے جن میں سب سے زیادہ شہرت بھولو پہلوان کو ملی۔ قیام پاکستان کے بعد جب تک دیسی پہلوانی کا زور رہا یہ خاندان فن پہلوانی میں نمایاں رہا۔ قیام پاکستان کے بعد فن پہلوانی کو وہ سرکاری سرپرستی حاصل نہیں رہی جو پہلے حاصل تھی تو پہلوانوں کے اکھاڑے بھی اجڑنے لگے۔ پہلوانوں کے خاندانوں کے نام کے ساتھ اب پہلوان لکھا جاتا ہے باقی سب رفتا ر زمانہ کے سبب ناقدری حالات کی وجہ سے دیگر کاموں میں مشغول ہو گئے۔ گاما خاندان کی آخری نشانی جھارا پہلوان یا ناصر بھولو کے بعد ان کے خاندان میں یہ فن بھی ختم ہو گیا مگر گوگل والوں نے اس عظیم پہلوان کو یاد رکھا اور خوبصورت انداز میں خراج عقیدت پیش کیا۔
٭٭٭٭
پرویز الٰہی کی دعا اور منحرف نون لیگی ارکان کے استعفے
گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کے پراسرار اور عجب و غریب حالات میں چند منٹی اجلاس کے بعد پرویز الٰہی سپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا تھا مسلم لیگ (نون) کا پہلا استعفیٰ آ گیا ہے اللہ برکت دے۔ مزید استعفے بھی آئیں گے۔ اور اس کے ساتھ ہی خانیوال سے منحرف مسلم لیگی رکن اسمبلی فیصل نیازی نے پنجاب اسمبلی سے اپنا استعفیٰ سپیکر یعنی چودھری پرویز الٰہی کو دے دیا ۔ اس سے پتہ چلتا تھا کہ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ نون کے باقی منحرف چند ارکان بھی جلد ایسا ہی کرنے والے ہیں۔ سو اب فیصل نیازی کے بعد جلیل احمد شرقپوری کے بھی اپنی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ کی افواہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چودھری جی کی دعا کہہ لیں یا پیشن گوئی پورا ہونا شروع ہو گئی ہے۔ فیصل نیازی کے بقول وہ بہت پہلے ہی مسلم لیگ (نون) سے راستہ جدا کر چکے تھے۔ یہی حال جلیل شرقپوری کا بھی ہے۔ وہ بھی عرصہ ہوا۔
’’شریفوں‘‘ سے رسم و راہ نہ کی
شکر ہے زندگی تباہ نہ کی
والے فلسفے پر چلتے ہوئے اپنی راہ جدا کر چکے تھے مگر اس میں چودھری پرویز الٰہی کے لیے خوش ہونے کی کوئی بات نہیں۔ عدالتی فیصلے کے بعد اگر یہ منحرف مسلم لیگ (نون) کی بجائے ق لیگ یا پی ٹی آئی کو ووٹ دیتے ہیں تو خودبخود خارج از اسمبلی ہو جائیں گے۔ اس لیے انہوں نے جو بعد میں ہونا تھا پہلے ہی کر دیا تاکہ کسی خفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یوں اب جمہوریت ڈی ریل ہونے کی بجائے آج کل منحرف ارکان اسمبلی کے ڈی سیٹ ہونے کی فلم چل رہی ہے۔
٭٭٭٭
برطانوی شہری نے 95 سال کی عمر میں پہلی جیون ساتھی چن لی
بے شک محبت ہو یا شادی ان کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی مگر یہ بھی تو سچ ہے کہ ہر کام مناسب وقت پر ہی اچھا لگتا ہے۔ اب اس برطانوی شہری کو دیکھیں جس نے 23 سال قبل اپنی محبوبہ کو دیکھا مگر شادی اب کی۔ شاید اب وہ اس سے یہ کہہ کر اظہار محبت کرتے نظر آئیں کہ ’’چن لیا میں نے تمہیں سارا جہاں رہنے دیا‘‘ اس کے جواب میں ان کی سابقہ محبوبہ اور موجود اہلیہ کو چاہیے کہ
کہاں تھے آپ۔ زمانے کے بعد آئے ہیں
میرے شباب کے جانے کے بعد آئے ہیں
کہہ کر اپنا شکوہ ضرور ریکارڈ کرائیں۔
اتنا طویل عرصہ درد محبت سینے میں دبا کر رکھنا اور چاہت کے باوجود اس کا اظہار نہ کرنا بھی بڑے کمال کی بات ہے۔ اب موصوف کی عمر 95 برس ہے تو ان کی اہلیہ بننے والی بھی کم از کم 70کے پیٹے میں تو ہوں گی۔ اس حساب سے بڑے میاں سے شادی کا فیصلہ ان کے لئے خاصہ مشکل رہا ہو گا۔ مگر شاید دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی اسی لئے انہوں نے دیر آید درست آید شادی کر کے اکٹھے رہنے کا فیصلہ کر لیا ورنہ اتنا عرصہ کسی شخص کے لئے تنہا رہنا واقعی یورپی آزاد معاشرے میں ایک چیلنج سے کم نہیں جہاں آج بھی لاکھوں لوگ شادی سے قبل ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے اکٹھا رہتے ہیں۔