ملک کو خانہ جنگی سے بچانا سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے

نئی حکومت بنے تقریباً ڈیڑھ ماہ ہوچکا ہے لیکن پاکستان میں سیاسی استحکام کا مسئلہ تاحال کسی حل کی طرف نہیں آسکا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ معاملات میں مزید الجھاؤ پیدا ہورہا ہے۔ سابقہ حکومت سے جڑی ہوئی سیاسی قیادت اپنے پونے چار سالہ دورِ اقتدار کی کارکردگی بتانے کی بجائے ایسے الزامات اور نعروں کے ذریعے عوام کو بہلارہی ہے جس کو کوئی واضح شکل دینا ممکن نہیں ہے۔ اس سلسلے میں کبھی تو غیر ملکی سازش کی بات کی جاتی ہے اور کبھی قوم کی آزادی کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کے ساتھی اس سب کی بجائے قوم کو یہ بتاتے کہ ان کی حکومت کن کن وجوہ کی بنیاد پر موجودہ حکومت سے زیادہ اہلیت کی حامل تھی اور انھوں نے ایسے کون سے اقدامات کیے جن کی بنیاد پر قوم کو آئندہ بھی ان کو عنانِ اقتدار تھامنے کے لیے مینڈیٹ دینا چاہیے۔
کل یعنی 25 مئی سے عمران خان نے ایک نیا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پشاور میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ 25 مئی کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا جائے گا۔ ملکی خودمختاری کے لیے جتنا وقت بھی اسلام آباد میں رہنا پڑا رہیں گے، ہم جان کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ اسمبلیاں توڑ کر فوری طور پر نئے انتخابات کرائے جائیں، تیسری کوئی بات ہمیں قبول نہیں، فوج، پولیس اور بیورو کریسی ہمارے ساتھ ہے۔ فوج سے کہتا ہوں وہ نیوٹرل رہے۔ عمران خان نے ایک بار پھر موجودہ حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ہماری حکومت کے خلاف رجیم چینج کی سازش کی گئی۔ پاکستان کے خلاف اس وقت سازش کی گئی جب ملک ترقی کر رہا تھا۔ 2018ء میں ہمیں ملک دیوالیہ حالت میں ملا جبکہ ہمارے حکومت چھوڑنے کے وقت ملک کی شرح نمو 6 فیصد تھی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھی جو اعداد و شمار اپنی تقریروں اور بیانات کے دوران پیش کرتے ہیں ان کی سرکاری ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکتی اور نہ ہی کوئی غیر جانبدار ادارہ ان کے پیش کردہ اعداد و شمار کو مصدقہ قرار دیتا ہے۔ اندریں حالات، یہ اعداد و شمار محض خیالی باتیں ہیں جو پی ٹی آئی کی قیادت نے خود سے گھڑ لی ہیں اور اب وہ ایک تواتر سے انھیں بار بار عوام کے ساتھ پیش کر کے سچ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں۔ یہی معاملہ عمران خان کے دیگر بیانات سے متعلق بھی ہے کہ وہ ایک طرف کوئی بات کہتے ہیں تو کچھ ہی دنوں بعد وہ اس کے بالکل الٹ بیان دیدیتے ہیں۔ غیر ملکی سازش کے حوالے سے بھی کبھی وہ کہتے ہیں کہ مجھے مارچ میں اس بارے میں پتا چلا اور کبھی وہ کہتے ہیں کہ مجھے کئی مہینے پہلے ہی اس سازش کے بارے میں پتا چل چکا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ملک کے معاملات پرگہری نظر رکھنے والے ادارے تو اس سازش سے بے خبر تھے لیکن عمران خان کو تمام تفصیلات معلوم تھیں۔
عمران خان کے ایسے غیر سنجیدہ بیانات ہی کئی بار بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے سبکی کا باعث بن چکے ہیں۔ دو روز پہلے انھوں نے سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ٹوئٹر پر لکھ دیا کہ بھارت میں تیل کی قیمتیں اس لیے کم ہوئی ہیں کیونکہ اس نے روس سے سستا تیل خریدا ہے۔ انھوں نے مزید لکھا کہ ہم بھی روس سے تیل خریدنا چاہتے تھے لیکن سازش کر کے ہماری حکومت ہٹا دی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں تیل کی قیمتیں روس سے سستا تیل خریدنے کی وجہ سے نہیں بلکہ سنٹرل ایکسائز ڈیوٹی میں کمی کی وجہ سے کم ہوئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کو یہ سب باتیں اس وقت یاد آئیں جب انھوں نے وزیراعظم کا عہدہ چھوڑ دیا۔ جب تک وہ اقتدار میں تھے ان کی پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی اور بے روزگاری کے ایک طوفان نے عوام کو بے حال کیے رکھا۔ اس وقت نہ تو انھیں روس سے سستا تیل لینا یاد تھا اور نہ ہی عوام کو حقیقی ریلیف دینے کے لیے ان کے پاس کوئی منصوبہ تھا۔
ان کے الزامات اور تقریروں کے جواب میں وزیراعظم شہباز شریف کا یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان ملک میں خانہ جنگی کروانا چاہتے ہیں۔ شہباز شریف نے اتوار کو لاہور میں پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ (پی کے ایل آئی) کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران نیازی کے پاس ہسپتال، سڑکوں اور خوشحالی کے لیے فرصت نہیں تھی۔ کئی لاکھ لوگ بے روزگار ہوگئے، ایک نوکری نہیں ملی۔ انھوں نے مزید کہا کہ عمران نیازی کے پاس سوائے گالم گلوچ کے کسی کام کے لیے فرصت نہیں تھی۔ نئے پاکستان کی بات کرنے والے نے عوام کو سبسڈی نہیں دی۔ سینکڑوں ایسے مریض اللہ کو پیارے ہوگئے جن کا علاج ہوسکتا تھا۔
سیاسی قیادت کے بیانات اور تقریریں ان کے ایک دوسرے سے کشیدہ تعلقات کی دلیل تو ضرور ہیں لیکن انھیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس ملک، جمہوری نظام اور اداروں کو بچانا ان کی ذمہ داری ہے۔ اگر سیاسی قائدین اپنے حامیوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا کر ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلیں گے تو اس سے کسی کو بھی فائدہ نہیں ہوگا اور سبھی نقصان اٹھائیں گے۔ اس وقت ملک جب سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام سے گزر رہا ہے اس کا متوازن اور مستقل حل فراہم کرنا بھی سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے۔ کروڑوں لوگوں نے اپنے ووٹوں کے ذریعے جن لوگوں کو اسمبلیوں تک پہنچایا ہے یہ ان کا فرض ہے کہ وہ عوام کے دکھوں کا مداوا کریں اور ملک کو استحکام کی طرف لاتے ہوئے عوام کو ریلیف مہیا کریں۔