ایک تو موسم گرم ہے دوسری طرف سیاسی میدان گرم ہے۔ دلچسپ امر یہ سیاسی میدان کے درجہ حرارت میں تیزی بھی پاکستان تحریکِ انصاف کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے ہے۔ ٹیلیویژن چینلز کے خبرنامے دیکھیں، اخبارات کے صفحہ اوّل کو دیکھیں حزب اختلاف کی جماعتوں سے زیادہ کوریج پی ٹی آئی کو مل رہی ہے کیونکہ گذشتہ کئی ہفتوں سے جہانگیر ترین کا گروپ میڈیا پر چھایا ہوا ہے یہ سب لوگ پاکستان تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن جیتے ہیں ان حالات میں پی ٹی آئی کے لیے مسائل تو ہیں۔ آئندہ بجٹ کو دیکھتے ہوئے "ترین گروپ" کو ہلکا نہیں لیا جا سکتا تھا۔ اس سیاسی سرگرمی کی وجہ سے ہر جگہ پی ٹی آئی ہی نظر آتی ہے۔ اس کے بعد میاں شہباز شریف نمایاں ہیں۔ جہانگیر ترین کو خاموش ہونا پڑے گا جب کہ ان کے ساتھیوں کے لیے بھی اچھی خبر مشکل ہی ہے۔ جیسے جیسے وقت گذرے گا ممکن ہے ترین گروپ پی ٹی آئی کی سیاست کا "غریب ترین" گروپ بن جائے۔ حکومت اپنی معاشی کامیابیاں عوام کے سامنے رکھ رہی ہے۔ اگر معیشت کی بہتری کے اثرات عوام تک پہنچتے ہیں تو پھر مسائل ان کے لیے ہوں گے جو حکومت میں نہیں ہیں۔ بہرحال ملکی سیاست میں کچھ نئی چیزیں ہونے والی ہیں، کچھ پرانے لوگ نئے کردار ادا کرتے دکھائی دیں گے۔ سب سے اہم نظام کا تسلسل ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران نظام میں عدم استحکام کی بہت کوششیں کی گئیں لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔ اصولی طور سیاسی جماعتوں کو نظام میں تسلسل کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اس وقت جو جماعتیں اپوزیشن میں ہیں جب یہ حکومت کا حصہ ہوا کرتی تھیں تو ان کی سب سے زیادہ توجہ اور گفتگو نظام میں تسلسل پر ہوتی تھی لیکن آج یہ سیاسی طاقتیں نظام میں تسلسل کے کے بجائے اپنی حکومت کے تسلسل کی باتیں کرتے دکھائی دئے ہیں۔ یہ دوہرے معیار ہیں۔ تمام تر مشکلات کے باوجود بھی اگر پاکستان تحریکِ انصاف حکومت میں ہے۔ اب تمام تر ذمہ داری پاکستان تحریکِ انصاف پر ہے۔ تمام سیاسی مسائل اور مزاحمت میں کمی کے باوجود بھی اگر عام آدمی کے مسائل کم نہیں ہوتے تو پھر سیاسی استحکام یا کسی بھی نظام میں تسلسل کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جب تک عام آدمی کو فائدہ نہ پہنچے کوئی بھی نظام کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اب یہ ذمہ داری نئے وفاقی وزیر خزانہ کی ہے۔ ان کے سامنے بڑے بڑے مسائل ہیں۔
وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین کہتے ہیں کہ "اب حکومت کی توجہ مہنگائی کم کرنے پر ہو گی۔ قیمتوں میں استحکام لانا ہماری ترجیح ہے۔" یہ درست ہے کہ تحریکِ انصاف کیلئے سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے بدقسمتی سے اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے حکومتی سطح پر سنجیدہ اقدامات نہیں کئے گئے۔ امپورٹ ایکسپورٹ کیلئے بھی بہتر حکمت عملی تیار نہیں کی گئی، وفاق اور صوبائی سطح پر اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے، استحکام لانے یا پھر ان اشیاء کی بلا تعطل فراہمی کیلئے بہتر فیصلے نہیں کئے گئے۔ اب وزیر خزانہ نے دو مختلف باتیں کی ہیں۔ وہ ایک ہی وقت میں مہنگائی کم کرنے اور قیمتوں میں استحکام لانے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ دو مختلف چیزیں ہیں اگر حکومت قیمتوں میں کمی لانے کی کوشش کرتی ہے تو یہ غیر حقیقی دعویٰ ہو گا کیونکہ اس سے پہلے اشیاء کی لاگت کو کم کرنا سب سے اہم ہے، کیا حکومت روپے کی قدر میں اتنا اضافہ کر سکتی ہے کہ ڈالر 2018 کی سطح پر واپس آئے، کیا حکومت بجلی، پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اتنی کمی کر سکتی ہے کہ یہ بھی اور کچھ نہیں تو کم از کم 2018 کی سطح پر واپس آئیں۔ اگر یہ نہیں ہو سکتا تو مہنگائی کم کرنے کا دعویٰ سیاسی نعرے سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتا۔ حکومت کوشش کرنا چاہتی ہے ضرور کرے۔ اگر کوئی کامیابی ملتی ہے تو بہت اچھا ہو گا کیونکہ گذشتہ ڈھائی برس سے عوام قربانی دے رہے ہیں۔ چونکہ مہنگائی بہت زیادہ بڑھی ہے ایک دو چیزوں کی قیمتیں کم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ قیمتوں کو کم کرنے کی کوشش ضرور کریں لیکن اس سے بہتر یہ ہے کہ ذرائع آمدن کو بڑھایا جائے، قوت خرید بڑھانے کی پالیسی پر کام کیا جائے تاکہ آمدن اور اخراجات میں توازن قائم ہو سکے۔ اگر اس حوالے پالیسی لائی جائے تو بڑی تعداد مستفید ہو سکتی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ "عام آدمی کیلئے مختلف اسکیمیں لا رہے ہیں۔ ملکی معیشت 3.94 فیصد سے ترقی کر رہی ہے، اگلے سال معاشی گروتھ پانچ فیصد ہو سکتی ہے، اس سے اگلے سال جی ڈی پی گروتھ چھ فیصد سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ ہم نے مختصر اور طویل المدت پلاننگ کی ہے۔ زراعت میں اضافی پیداوار کی کوشش کریں گے۔ آئی ایم ایف نے سخت رویہ اپنایا، اوور سیز پاکستانیوں نے ملکی معیشت کو سہارا دیا، ٹیکس نہ دینے والوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔
شوکت ترین اسلام آباد میں ان خیالات کا اظہار فرما رہے تھے یقیناً لاہور سے ان تک روٹی کی قیمت میں اضافے کی خبر پہنچی ہو گی۔ لاہور میں روٹی کی قیمت دو روپے کا اضافے کے بعد اب دس روپے کی ہو گئی ہے۔ نان بائیوں کا کہنا ہے کہ ایک ہفتہ پہلے آٹے کا تھیلا 850 روپے میں مل رہا تھا، اب اس کی قیمت 1070 روپے ہو گئی ہے۔ آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے بعد روٹی کی قیمت میں اضافے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کے بارے انہی صفحات پر مسلسل لکھا ہے اب نئے وزیر خزانہ آئے ہیں ان کیلئے بھی یہی مشورہ ہے کہ پہلے اپنی ٹیم پر توجہ دیں، ان سے پہلے جو لوگ کام کر رہے تھے ان کی کارکردگی کا جائزہ لیں اور ناکام رہنے والوں سے جان چھڑائیں۔ قیمتوں کو کنٹرول کریں اور آمدن میں اضافے کیلئے اقدامات کریں۔ سب سے پہلے آٹے کی قیمت کو قابو کریں تاکہ سستی روٹی میسر آ سکے۔ یہ یاد رکھیں کہ مزدوروں کی بہت بڑی تعداد تین وقت کھانے کیلئے ہوٹل کا رخ کرتی ہے۔ دس روپے کی روٹی میں تو وہ اپنا خرچ پورا نہیں کر سکتے گھر والوں کیلئے کیا بچائیں گے۔ حکومت کی اصل اپوزیشن مہنگائی ہے جو نہ سمجھوتا کرتی ہے نہ رکتی ہے نہ خاموشی اختیار کرتی ہے۔ یہ ہر دور میں بڑھتی رہی ہے دیکھتے ہیں شوکت ترین اسے روکنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38