اتوار ‘یکم شوال 1441 ھ‘ 24؍مئی 2020ء
خوش قسمت ایئرہوسٹس مدیحہ ارم کی عین وقت پر ڈیوٹی بدل گئی
یہی تو قسمت کا کھیل ہے پیارے، جس کی لکھی نہیں وہ جاتے جاتے ٹھہر جاتا ہے، راہ بدل لیتا ہے۔ جس کی لکھی ہے اسے عین وقت بلاوا آجاتا ہے، اس کی ڈیوٹی لگ جاتی ہے۔ مدیحہ ارم خوش قسمت ہیں کہ ان کی آئی ٹل گئی اور عین وقت پر اس بدقسمت طیارے سے ان کی ڈیوٹی تبدیل کر دی گئی اور انعم مقصود کو ان کی جگہ طیارے میں ڈیوٹی پر بھیج دیا گیا جو اس حادثے میں لقمہ اجل بن گئی۔ دوسری طرف بینک آف پنجاب کے سربراہ ظفر مسعود اور دوسرے زندہ بچ جانے والے مسافر زبیر کی کہانی بھی دیکھ لیں، وہ اس بدقسمت تباہ ہونے والے طیارے کے خوفناک حادثے میں بھی معجزانہ طور پر زندہ بچ گئے۔وہ معمولی زخمی ہوئے مگر خدا نے انکی زندگی محفوظ رکھی۔ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ…؎
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے
وہی خدا ہے وہی خدا ہے
یہ اسی کائنات کے مالک، زندگی اور موت کے خالق کا کمال ہے کہ وہ آگ کو گل گلزار بنا دیتا ہے۔ پتھر سے چشمے جاری کر دیتا ہے۔ مرنے والے کو زندگی اور ہنستے کھیلتے لوگوں کو موت سے ہمکنار کرتا ہے۔ ان دو مسافروں کا بچنا بتا رہا ہے کہ زندگی اور موت صرف اس ذات باری تعالیٰ کے ہاتھ میںہے جو ہر چیز پر قادر ہے۔ کبھی کسی کی ڈیوٹی بدل کر زندگی بچاتا ہے اور کبھی جلتے طیارے سے زندہ نکالتا ہے۔
٭…٭…٭
دیسی مرغی‘ ادرک اور شہد کرونا کے علاج میں مفید ہیں: پروفیسر فائز عبدالرب
ہمیں پروفیسر صاحب کے علم و فضل اور خلوص نیت پر کوئی شبہ نہیں مگر خدارا ذرا غور کریں دنیا بھر میں ترقی یافتہ ممالک اربوں ڈالر لگا کر اس کرونا وائرس کا علاج دریافت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جدید ترین لیبارٹریاں اور سائنسدان سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں تو ہمارے ہاں ابھی تک پیاز‘ لہسن‘ دیسی مرغی‘ ادرک اور شہد سے ہی ساری بیماریوں کا علاج کیوں اور کس طرح دریافت کیا جاتا ہے۔ انہیں امرت دھارا کا اکسیر نسخہ کیوں قرار دیا جاتا ہے۔ ان باتوں کا‘ فارمولوں کا کوئی اثر ہو یا نہ ہو‘ افواہ ساز فیکٹریوں کے حرکت میں آتے ہی ان اشیاء کی مانگ ضرور بڑھ جاتی ہے۔ ظاہر ہے جان سب کو پیاری ہوتی ہے۔ اب لوگ دھڑادھڑ کرونا سے بچائو کیلئے حفاظتی اقدامات کی بجائے ادرک اور شہد پر ٹوٹ پڑیں گے۔ ان کی قیمت پہلے کیا کم ہے کہ اور چڑھ جائے گی۔ رہی بات دیسی مرغی کی تو جناب آجکل دیسی مرغی تو دیہات میں بھی دستیاب نہیں‘ وہاں بھی فارمی مرغیوں اور انڈوں کا راج ہے تو لوگ دیسی مرغیاں کہاں تلاش کرتے پھریں گے۔ پہلے ہی تمام دیسی مرغ یا مرغیاں 12 یا 15 سو روپے سے کم میں نہیں ملتیں وہ بھی زندہ۔ گوشت تو اس سے زیادہ مہنگا ہے۔ سچ کہیں تو سونے کے بھائو ملتا ہے۔ اب امیروں کیلئے تو یہ نسخہ مجرب ہو سکتا ہے۔ غریب بے چارہ کیا کرے گا سوائے کرونا کے علاج کے لئے انگریزوں کی بنائی ویکسین کے بازار میں آنے کے انتظار کے ۔
٭…٭…٭
جمعتہ الوداع کے موقع پر یوم القدس بھی منایا گیا، ریلیاں نکالی گئیں
صرف دن منانے سے مسائل حل نہیں ہوتے اگر ایسا ہوتاتو مزدوروں اور خواتین کے مسائل کب کے حل ہوچکے ہوتے۔ یوم القدس منانے کا مقصد عالمی برادری کو اسرائیل کی فلسطین میں دہشت گردی اور ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف بیدار کرنا ہے مگراس بات کا کیا جواب ہے کہ خود مسلم امہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے مسئلہ فلسطین کے حل ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔ فلسطین اور بیت المقدس کی فتح کیلئے اللہ کرے کہ مسلمانوں میں ایک بار پھر عمر بن خطابؓ فاروق اعظم کا جنم ہو جو یہودیوں کے پنجہ ظلم و استبداد کو توڑ کر فلسطین اور بیت القدس کو آزادی دلائیں۔ 1500سال قبل بھی حضرت عمرؓ جیسے جری حکمران نے فلسطین اور بیت المقدس کو فتح کیا تھا۔ آج بھی مسجد اقصیٰ ان جیسے کسی جری مسلم حکمران کی راہ دیکھ رہی ہے۔ او آئی سی سے بہت امیدیں تھیں مگر وہ بھی اقوام متحدہ کی طرح صرف مذمتی بیان جاری کرنے یا پھر کسی المیہ کے بعد تعزیتی بیان جاری کرنے تک ہی محدود رہ گئی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ مسلم امہ متحد ہو کر فلسطینیوں کے حق میں سدٰ سکندری بن جائے تو امریکہ یا اسرائیل میں جرأت نہیں ہوگی کہ وہ فلسطین اور بیت المقدس پر زیادہ دیر اپنا غاصبانہ تسلط برقرار رکھ سکیں۔
٭…٭…٭
کروناکی دوسری لہرآنے پر بھی امریکہ کو بند نہیں کرینگے: ٹرمپ
کون کیا بند کرتا ہے، یہ تو بہت بعد کی بات ہے۔ فی الحال تو خود ٹرمپ جی اپنی ادائوں پر غور کریں۔ ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کو بھی کرونا سے نجات کیلئے دعائوں کی ضرورت ہے۔ یہ ان کی اپنی شکست کا اعتراف نہیں تو اور کیا ہے کہ اعلیٰ ترین سائنسدان، ماہرین اور لیبارٹریوں کے باوجود ایک معمولی سا وائرس امریکہ تو کیا پوری دنیاکے قابو میں نہیں آرہا۔ سب کو تگنی کا ناچ نچا رہا ہے۔ ساری دنیا حفاظتی اقدامات کے ساتھ اب دعائوں کی طرف راغب ہو رہی ہے، اس لئے ایسی باتیں کرنے کی بجائے ٹرمپ جی بھی وائٹ ہائوس کے چرچ میں جا کر خصوصی عبادت کا اہتمام کریں۔ دوسروں کے ساتھ مل کر خدا کے حضور دعا کریں کہ وہ اس موذی کرونا کا رخ پھیر دے، اسے نیست و نابود کر دے۔ یہ نہ کہیں کہ کرونا پھر دوبارہ آگیا تو بھی امریکہ کو بند نہیں کروں گا۔ ابھی تک صرف ایک لہر آئی تھی، امریکہ تو کیا پوری دنیا بند ہوگئی۔ خدانخواستہ دوسری لہر آئی تو شاید دنیا بچ ہی نہ پائے۔