انور مسعود کا ایک ٹویٹ سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ’’ رمضان میں بنی ہر چیز مزے لے کر کھائی جاتی ہے، پاکستان بھی رمضان میں بنا تھا اس لئے سب مزے لے لے کر کھاتے ہیں‘‘۔ انور مسعود نے کمال کی بات کی ہے۔ پاکستان کو مزے لے لے کر کھانے کا یہ سلسلہ تو اس کے بننے کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ سیٹلمنٹ کے نام پر گھپلے شروع ہوئے تھے، ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والوں کو ان کی چھوڑی ہوئی جائیدادوں کے عوض پاکستان میں مکان اور زمینیں الاٹ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا، ایک محکمہ سیٹلمنٹ کے نام سے قائم ہوا جو کہ بدعنوانی کا گڑھ بن گیا۔ لوگوں نے جعلی کلیمز داخل کر کے کروڑوں اور اربوں کی جائیدادیں اپنے نام کرا لیں۔ اس پراسیس میں کنگلے راتوں رات کروڑ پتی بن گئے۔ اسی دور میں رپورٹ اور ایکسپورٹ لائنسز کو بھی سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کیا گیا اور اس دور کی ناپائیدار حکومتوں نے لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے امپورٹ ایکسپورٹ لائسنسز بھی بطور رشوت لئے جن سے لوگوں نے خوب مال بنایا۔ ایوب خان کے دور میں ٹرانسپورٹ اورسینما گھروں کی تعمیر کیلئے لائسنز سیاسی رشوت کے طور پر دیئے گئے۔ اس دور میں زمینیں بھی ان بااثر لوگوں میں بانٹی گئیں جو اس وقت کی حکمران جماعت کنونشن مسلم لیگ کو سپورٹ کر رہے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں راشن ڈپو، تیل، سیمنٹ اور نمک کی ایجنسیاں پی پی پی کے حامیوں کو دی گئیں جو کمائی کا ایک بڑا ذریعہ بن گئیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں شہروں میں قیمتی پلاٹ اور جائیدادیں ضیاء الحق کے حامیوں نے حاصل کیں۔ اس دور میں جنرل ضیاء الحق اور فوجی حکومت کے قریب لوگوں نے اپنے عزیزوں، بیٹوں، دامادوں، کو ایسی سرکاری ملازمتیں دلائیں جن سے وہ ماہانہ لاکھوں کروڑوں روپے بنانے کی پوزیشن میں آ گئے، اس دور میں نائب تحصیلدار، تحصیلدار، پولیس انسپکٹر ، ایف آئی اے، کسٹم اور انکم ٹیکس میں نچلی سطح کی ملازمتیں دی گئیں جو کمائی کا ایک ذریعہ بنتی گئیں۔ اس دور میں بیرون ملک خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں تیل سے مالا مال ملکوں میں افرادی قوت بھیجنے کیلئے ریکروٹنگ لائسنز بھی سیاسی بنیادوں پر جاری کئے گئے۔ وہ لوگ جو جنرل ضیاء الحق اور ان کی حکومت کو سپورٹ کر رہے تھے۔ انھیں یہ لائسسنز دیئے گئے۔ اسی دور میں قد آور سیاسی شخصیات نے کروڑوں اور اربوں روپے کے قرضے بینکوں سے لئے اور پھر معاف کرا لئے۔ اس طرح بہت سے سیاسی خانوادے ارب پتی بن گئے۔ ماضی میں کئی مرتبہ یہ مطالبہ ہوتا رہا کہ قومی بینکوں سے کھروں روپے کے قرضے معاف کرانے والی شخصیات کو بے نقاب کر کے ان سے قرضے واپس لئے جائیں لیکن یہ صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔
نواز شریف کے دور میں صنعت اور تجارت کے ذریعے بڑا پیسہ Mega Money بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دور میں سیاسی شخصیات نے شوگر ملیں لگائیں اور یہ ملیں لگانے کیلئے بینکوں سے قرضے لئے ۔ 90 کی دہائی میں شوگر ملیں لگانا اہم سیاسی شخصیات کا ایک محبوب مشغلہ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ کھانے کے تیل یعنی آئل ملیں بھی لگنی شروع ہوئیں، یہ دونوں صنعتی شعبے بہت منافع بخش تھے جن سے بڑی کمائی کی گئی۔ اب تک یہ بات سامنے نہیں آ سکی کہ بینکوں سے قرضے لے کر جو شوگر اور آئل ملز لگائی گئیں، کیا وہ قرضے واپس ہوئے یا نہیں۔ یہ تو تحقیقات سے ہی پتہ چل سکتا ہے۔ اسی دور میں کو آپریٹو بینکوںکا قیام بھی سامنے آیا۔ کو آپریٹو بینک بھی ایک منافع بخش کاروبار بن گئے۔ 90 کی دہائی کے شروع میں کوآپریٹو سکینڈل سامنے آیا جس میں بڑی بڑی سیاسی شخصیات کے نام تھے اور ان پر الزام تھا کہ انھوں نے عام غریب لوگوں اور دیہی کاشتکاروں کے چھوٹے چھوٹے کھاتے کھول کر ان سے اربوں روپے اینٹھ لئے اور پھر یہ بینک دیوالیہ قرار دے دیئے گئے۔ یہ بڑا سکینڈل تھا، اس کی تحقیقات بھی کرائی گئیں لیکن جن شخصیات پر الزام لگتا تھا، انھیں بری کر دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں بجلی کی پیداوار کے تیل سے چلنے والے جو پاور پلانٹ لگائے گئے، ان سمجھوتوں اور شرائط کی کہانی سامنے آ چکی ہے۔ آئی پی پیز کے ذریعے پاکستان کے غریب دیہاڑی دار مزور کسان کاشتکار اور چھوٹے تاجروں و مڈل کلاس لوگوں کی جیبوں سے کھربوں روپے نکال لئے گئے۔ یہ سکینڈل بھی سامنے آ چکا ہے کہ مشرف دور میں سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضہ کرے قومی خزانہ کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا اور اب تازہ ترین شوگر سکینڈل سامنے آیا ہے ۔ چینی کی ہیرا پھیری، قیمتوں میں اضافہ، سبسڈی کے حصول اور برآمد کے سارے معاملے پر رپورٹ آ چکی ہے۔ پاکستان کے غرباء کو یہاں بھی لوٹا گیا اور شوگر بنانے والوں نے کھربوں روپے اینٹھ لئے، تحقیقاتی کمیشن نے جن شخصیات کو بے نقاب کیا ہے ان میں ساری سیاسی جماعتوں کے با اثر افراد شامل ہیں۔ اب سوال یہ پوچھا جا رہا ہے کہ کیا ان کے خلاف کوئی ایکشن ہو گا یا نہیں۔ ؟ انور مسعود نے یقینا بالکل درست کہا ہے کہ ’’ رمضان میں بنی ہر چیز مزے لے کر کھائی جاتی ہے، پاکستان بھی رمضان میں بنا تھا اس لئے سب مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔‘‘
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024