قیام پاکستان سے قبل کی تاریخ میں جھانکیں تومعلوم ہوگا کہ تحریک پاکستان میں بھی علاقائی اخبارات کا بہت اہم کردار رہا ہے۔یہ علاقائی اخبارات ہی تھے جنہوں نے ایک طر ف تو مسلمانان برصغیر کا لہو گرمایا اور ان کے دلوںمیں آزادی کی تڑ پ پیدا کی تو دوسری طرف قائداعظم محمد علی جناحؒ سمیت دیگر قومی قیادت کو اپنے اپنے علاقوں کااحوال مسائل، لوگوں کا نقطہ نظر اور مطالبات و تجاویز کو اپنے اداریوں، کالموں، مضامین، فیچر اور خبروں کے ذریعے بہم پہنچایا۔ اس طرح تحریک پاکستان میں علاقائی اخبارات نے دو طرفہ حصہ ڈال کر تاریخی فریضہ انجام دیا۔ لائل پور کے سعادت اورکوئٹہ اور پشاورسے شائع ہونے والے کچھ پرچوں نے تو تحریک پاکستان میں اس قدرمتحرک کردار ادا کیا کہ جناح و اقبال کے سپاہی ہونے کا حق ادا کر دیا۔ یہ وہ علاقائی اخبارات تھے جو مسلمانان برصغیر کی حالت زار پر تڑپ اٹھے تھے اور ان کی آزادی کے لئے کلمۂ حق بلند کرچکے تھے۔
علاقائی اخبارات کا یہ قومی و ملی کردار پاکستان بننے کے بعد بھی ختم نہیں ہوا بلکہ اب تک جاری و ساری ہے جس کے تحت انہوں نے اپنے علاقوں کے مسائل حکام بالا تک پہنچانے کا فریضہ ایک تسلسل کے ساتھ جاری رکھا ہوا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد لائل پور کے چار روزناموں روزنامہ غریب، روزنامہ عوام، روزنامہ سعادت اور ڈیلی بزنس رپورٹ نے ملک کے سیاسی و سماجی اور اقتصادی میدان میں جو تعمیری کردار ادا کیا آج ان کے طفیل ہی پاکستان میں بہت سی مثبت تبدیلیاں اور راحتیں و سہولتیں میسر ہیں۔ کوئٹہ سے روزنامہ زمانہ، پشاور سے روزنامہ الفلاح اور روزنامہ شہباز، ایسے علاقائی اخبارات تھے جنہوں نے علاقائی تعمیر و ترقی میں گراںقدر خدمات انجام دیں۔لائل پور کے روزنامہ عوام نے جناب ظہیر قریشی کی زیر ادارت علاقائی اخبار کا ایک مکمل ماڈل پیش کیا۔ اس اخبار میں پیشانی سے پرنٹ لائن تک تمام مواد مقامی اور علاقائی اہمیت کو پیش نظررکھ کر شائع کیا جاتا تھا۔ علاقائی اخبارات کو اس دور میں اس قدر اہمیت حاصل تھی کہ سرگودھا کے ایک کمشنر نے ’’تجارت‘‘ سرگودھا کے زیر اہتمام منعقد ہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’نماز اور تلاوت کلام پاک کے بعد میں اپنی صبح کا آغاز ’’تجارت‘‘ کے مطالعہ سے کرتا ہوں۔ اس سے مجھے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں میرے ڈویژن میں کیا اہم واقعات رونما ہوئے اور اگلے چوبیس گھنٹوں میں مجھے کیا فرائض انجام دینے ہیں۔‘‘
یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ علاقائی اخبارات اپنے اپنے علاقے کے مسائل واضح کرنے کے ساتھ قومی اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لئے بھی ایک نرسری کا کردار ادا کررہے ہیں۔ آج قومی میڈیا میں نمایاں مقام رکھنے والے اکثر صحافیوں نے ابتداء میں علاقائی اخبارات میں ہی اپنے جوہر دکھائے اور ان اخبارات کی سیڑھیاں چڑھ کر ہی قومی سطح پر اپنی شناخت بنائی۔ آج قومی اخبارات کے پاس اتنی جگہ نہیں کہ وہ ڈاک ایڈیشن میں بھی علاقائی مسائل کو جگہ دیں مگر علاقائی اخبارات کو وہ وسائل میسر نہیں جو ان کے تعمیری کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں مہیاکئے جانے چاہئیں ۔ اگر آج دانستگی یا نادانستگی میں علاقائی اخبارات کا گلا گھونٹا گیا اورانہیں قومی میڈیا کی دبیز تہہ تلے دفن کرکے ان کے معاشی قتل کی طرف قدم بڑھایا گیا تو ہم اپنی روایات و ثقافت اور تہذیب و اقدار کی ترویج اور مسائل کو اجاگر کرنے سے ہی محروم نہیں ہوں گے بلکہ اسلاف کے ان پودوں کی جڑیں کاٹتے ہوئے اس شجر سایہ دار سے محروم ہو جائیں گے جس کی چھائوں تلے جناح کے قافلے نے قیام کیا، جس کو مولاناظفر علی خان اورمحمد علی جوہر نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور انہی علاقائی اخبارات کے دم قدم پر ’’تحریک پاکستان‘‘ کو ’’تشکیل پاکستان‘‘ کے خوش نما اور جاذب نظر پورٹریٹ میں ڈھالا جہاں آج مادر وطن کی آزاد گود میں قومی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیاپھل پھول رہے ہیں۔ (ختم شد)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024