مکرمی! عید اسلام کا بڑا عظیم اور بڑا ممتاز تہوار ہے اور یہ مسلم ہے کہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے، اس کے اصول عالم گیر ہیں۔ اسی لئے یہ یکساں طور پر سارے عالمِ اسلام میں اسلام کی بھلائی کا خواہاں ہے، جس میں امیر و غریب اور رنگ و نسل کی کوئی تمیز نہیں۔ اس نے عید کی خوشیاں سے لطف اندوز ہونے کی اجازت فقط محدود حلقے کے لئے نہیں دی بلکہ اپنے پیر کاروں میں سے صاحبِ استطاعت افراد کو حکم دیا ہے کہ اس سے پہلے کہ تم عید کی خوشیاں مناؤ، اس بات کا جائزہ لو کہ تمھارے مفلس اور نادار مسلمان بھائی کہیں اپنی مفلسی کی بناء پر عید کی خوشیاں سے محروم تو نہیں ہیں۔ کیونکہ اگر ایسا نہیں کرتے تو تمھارا یہ جشنِ عید ادھورا رہے گا۔ اس لئے کہ ایسا جشن اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک امیر و غریب اور چھوٹے بڑے کی تخصیص کے بغیر ہر شخص اس میں شرکت نہ کرے۔ اسی لئے دینِ اسلام نے عید کی صورت میں ایک ایسی بزم دی ہے جس کی نظیر کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی۔ عید کا تہوار عالمی درسِ اتحاد کا پیغام دیتا نظر آتا ہے اور ایک لاجواب اجتماعیت کا منظر ہر جگہ نمایاں ہوتا ہے۔ اسی اتحاد و اجتماعیت سے مسلمانوں کے دل و دماغ کو منور کرنے کے لئے مذہب اسلام نے ہزاروں افراد کے اجتماع کی یہ سالانہ تقریب مسلمانوں کو عطا کی ہے۔ ہم اس عید کو سابقہ روایات کی طرح نہیں منا سکتے کیونکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہمیں عید نہایت سادگی اور عاجزی سے منانی چاہئے۔ کورونا کی وجہ سے عید افطر کے موقع پر گھر وںسے نکلنا مشکل ہو گیا ہے، زندگی کا پہیہ جام ہو چکا ہے اور ہر کوئی ان حالات میں پریشان ہے۔ غریب، مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کی اکثریت عید منانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ہر ایک انسان کا دل دکھی ہے، فضا سوگوار، ہر طرف ہو کا عالم اور اضطراب کی سی کیفیت پھیلی ہوئی۔ موجودہ حالت میں لوگ معاشی اعتبار سے بہت کمزور ہو چکے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں ایسے خاندان بھی ہیں جو کسم پرسی کی زندگی گزر رہے ہیں اگر چہ حکومت سمیت بہت سے مخیر حضرات اور فلاحی ا دارے ان ضرورت مندوں کی مدد کر رہے ہیں لیکن انفرادی طور پر ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ وہ مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے آس پاس اور رشتہ داروں میں ایسے افراد کی مدد کیلئے سامنے آئیں۔حالات ناسازگار ہونے کی وجہ سے ہم سب کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر کے مستحق افراد کا خیال رکھ کر ان کی مالی معاونت کر کے انہیں بھی عید کی خوشیوں میں شامل کریں۔ یہ عید مختلف قسم کی ہو گی جس میں ماضی کی طرح چاشنی، میل ملاپ، ہلے گلے نہیں ہوں گے۔ اپنی عید کے اخراجات روک کر اپنی عید کی خوشیاں ان ضرورت مندوں کے حوالے کرنا ہوں گی جو کرونا کی وجہ سے گزشتہ دو ماہ سے بیروزگار ہیں۔ اگر ہم نے کھلے پن کا مظاہرہ نہ کیا تو بہت سے افراد کی عید مشکلات میں گزرے گی۔ اگر اس دفعہ ملک کے صاحبِ حیثیت لوگ یہ عہد کر لیں کہ ہمیں اس مرتبہ عید کی خوشیوں میں اپنے ساتھ غریبوں اور ناداروں کو بھی شریک کرنا ہے تو یقینا ہم عید کے تقاضوں کو ہم با آسانی پورا کر سکتے ہیں۔ عید الفطر کا موقع قبولیت دعا کا موقع ہے، اپنے لئے، ملک کیلئے، ساری مسلم امہ کیلئے اور پوری دنیائے انسانیت کے دعا کریں۔ (رانا زاہد اقبال۔ فیصل آباد)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024