سوشل میڈیا کے کاپی پیسٹ نقادوں اور خودساختہ دانشوروں نے اودھم مچا رکھا ہے، ان 2 ویڈیوز کو لیکر جن میں کوئی خاتون آرمی آفیسر کی بیوی ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے اور ڈیوٹی اہلکار اس سے تمیز سے بات کرنے کی بجائے اسے الجھنے پر اکسائے چلا جارہا ہے۔ دوسری ویڈیو بھی سڑک ہی کی ہے، جس میں ٹریفک اہلکار خود ہی کسی گاڑی مالک کو آرمی آفیسر قرار دیکر اس سے مسلسل الجھتا نظر آرہا ہے ۔ذاتی انانیت نے ملک کے دو اہم ترین شعبوں کو اڑا کے رکھ دیا۔ بات تمیز سے بھی ہو سکتی ہے، آن ڈیوٹی کھڑے ہونے کا یہ بھی مطلب نہیں کہ کسی کی بھی تذلیل کر دی جائے۔ قانون فرائض شائشتگی اور تہذیب گئی بھاڑ میں۔ اس ملک میں اختیارات کا نشہ چڑھا ہے، ہر دوسرے چھوٹے سے لیکر بڑے آفیسر کو۔ بیرونی دنیا ریسرچ اور ایجادات پر ایجادات کر رہی ہے اور ہم جگہ جگہ ہر پل ذاتی انانیت کی جنگ چھیڑ کر بدتمیزی اور اختیارات کی بدمعاشی کے میڈلوں کے میڈل بنائے چلے جارہے ہیں۔ اس ملک میں پہلے ہی اختیارات کی کوئی حد نہیں تھی، اوپر سے موبائل کیمرے نے معاشرے کے ہر شخص کو جج بنا دیا ہے جو کیس سننے سے پہلے ہی فیصلہ صادر کرنے پر تلے ہیں۔ اخلاقیات کا جنازہ نکال کر ہم اس پاکستان کی کیا خدمت کر رہے ہیں، ہم بالکل فراموش کر چکے ہیں کہ بطور شہری اور بطور پاکستانی ہمارے کیا فرائض ہیں۔ آفیسر سویلین ہو یا غیر سویلین بیچ چوراہے اختیارات کا تماشا لگا کر ہم دنیا کو کیا میسج دے رہے کہ ملک میں انارکی ہے، کوئی ضابطہ قانون قاعدہ نہیں، ہم دشمن ملکوں کو کیا پیغام دے رہے کہ ہم اپنی وردیوں اپنے محکموں اور ڈسپلن کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں، ہم آرگنائزڈ قوم نہیں، بے ہنگم ہجوم ہیں اور سرکاری ضابطوں کی جگہ غلیظ گالیوں کا استعمال کرنا ہمارا عام معمول ہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ معزز سرکاری عہدوں پر ہونے کے باوجود کس چیز نے ہماری برداشت اور تحمل کو مکمل ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ نفسیات کے طالب علموں کو نفسیات کے سیٹ قوانین پڑھاتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ معاشرتی کلچر کے برعکس عمل کرنے والے ایب نارمل ہوتے ہیں ،خدا نہ کرے کہیں ہم اپنے کلچر کو بدتمیزی انانیت اور گالیوں پر تو سیٹ نہیں کر چکے جو ہر چوک چوراہے پر روزانہ یہ ان ایکشن دیکھنے کو ملتا ہے، سوشل میڈیا اس وقت بھرا پڑا ہے ایسی دو ویڈیوز سے جس میں سویلین اور غیر سویلین پاکستانی دو آفیسرز اور اہلکار ایک دوسرے پر ننگی گالیوں کا تبادلہ کرتے دکھائی اور سنائی دے رہے ہیں۔ دوسری ویڈیو بھی موٹروے پر ٹریفک اہلکار کی کسی غیر سویلین خاتون سے تنازعہ کی ہے۔ کہنا صرف اتنا ہے کہ سرکاری ملازم جب کسی ڈیوٹی پر کھڑا ہوتا ہے تو لاء اینڈ آرڈر کو قائم رکھنا اس کا پہلا فرض ہوتا ہے نہ کہ وہ خود امن وامان خراب کرنے کا باعث بن جاہے اور اپنے غیر مناسب رویے یا غیر انسانی سلوک سے خود کو کھڑے کھڑے آفیسر سے ملزم بنا لے اگر گاڑی میں موجود کسی خاتون نے آن ڈیوٹی آفیسر کو اپنا تعارف کرا ہی دیا ہے تو اس نے کونسی گولی مار دی ہے کہ اس پر لیڈیز فرسٹ کا اسلامی اور ملکی ضابطہ لگانے کی بجائے اپنے اختیارات کی دھونس لگاتے ہوئے خاتون کو مزاحمت اور بدتمیزی پر مجبور کر دیا جائے اور پھر اس عمل کی ویڈیو بنا کر نہ صرف محکمانہ ڈسپلن کی خلاف ورزی کی جائے اور ویڈیو کو شوشل میڈیا پر دے کے پوری دنیا میں نہ صرف ان کی بلکہ اپنے محکمے کی اور اپنے ملک کی جگ ہنسائی کی جائے۔ پاکستان کے کس محکمے میں ایسی ویڈیو کو سوشل میڈیا پر دینے کا قانون موجود ہے اگر ویڈیو بنانے والا غیر قانونی کام کر ہی لیا تھا تو اپنے محکمے کو دی جاتی، ٹریفک آفیسر کا کام ٹریفک کنٹرول کرنا یا چالان کرنا ہے، ویڈیو بنانا یا بنوانا اس کی ڈیوٹی نہیں اگر یہ مان بھی لیں دونوں واقعات میں کسی آرمی آفیسر یا کسی آرمی آفیسر کی وائف کسی ٹریفک اصول کی خلاف ورذی کے مرتکب ہوئے ہیں تو ڈیوٹی پر موجود اشخاص کی ڈیوٹی اور اخلاقی فرض یہ تھا کہ تمیز اور شائشتگی سے انہیں مخاطب کریں کہ میم یا سر پلیز آپ ٹریفک رولز کی پاسداری کریں، آپ معزز شہری ہیں، قانون کا احترام کیجئے تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ کوئی بدمزگی رونما ہو جاتی، ان دونوں شرمناک واقعات میں آگ لگانے اور اس پر پٹرول چھڑکنے کا کردار ٹریفک اہلکاران ادا کر رہے ہیں اور کسی کا خود کو کرنل کہنا یا کسی کا خود کو کرنل کی بیوی کہنا تب تک درست نہیں سمجھا جاسکتا جب تک محکمہ اس کی تصدیق نہ کر دے کیونکہ آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ خود کو آرمی آفیسرز قرار دیتے ہیں جو بعد میں درست ثابت نہیں ہوتا البتہ دونوں شرمناک واقعات میں ٹریفک پولیس یا موٹر وے پولیس کے اہلکاروں کا سرکاری ملازم ہونا ضرور ثابت ہو رہا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024