عصرِ حاضر کا موازنہ عہدِ رفتہ کی حقیقتوں سے کیا جاناحالات کا تقاضہ بن گیا ہے کیونکہ فی زمانہ جھوٹ پر مبنی غیر حقیقی عوامل کے ذریعے دنیا کی توجہ حاصل کرکے اپنے لئے ہمدردیاں پیدا کرنا اور اپنے مذموم مقاصد کی ہر صورت تکمیل کرناہے ۔دوسری جنگِ عظیم نوعِ انسان پر چھ سال مسلط رہی یعنی 1939 ء سے لیکر 1945 ء تک دنیا میں آگ کی ہولی کھیلی گئی جس میں ساٹھ لاکھ یہودی مارے گئے، اس قتلِ عام کو ’’ ہولو کاسٹ ‘‘ کا نام دیا گیا ،ہولو کاسٹ یونانی لفظ ہولو کاسٹن سے ماخوز ہے جس کے معنی ہیں مکمل طور پر آگ میں جل کر قربانی دینا ، یہودی قوم نے ہولوکاسٹ کے واقعے کو مبالغے کی حد تک بڑھا چڑھا کر دنیا کے سامنے پیش کیااس حوالے سے ہولوکاسٹ یہودیوں کے قتل عام کاا ستعارہ بن گیا ، ہولوکاسٹ کا ذمے دار جرمن لیڈر ہٹلر اور اس کی نازی پارٹی کو قرار دیا جاتا ہے،جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے، جنگ عظیم کے آخری دنوں میں اتحادی طیاروں نے بھی معمول کے مطابق اس جھوٹ میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے پولش اور جرمن زبان میں لکھے ہوئے پمفلٹ قریبی علاقوں میں گرائے تھے جن میں لکھا ہوتا کہ یہودیوں کو گیس چیمبر میں جلا یا جارہا ہے یہ نازی مخالف پروپیگنڈا مہم کا حصہ تھا جسے اتحادی ممالک کے ریڈیو چینلز کے ذریعے تمام یورپی ملکوںمیں پھیلایا گیا اور لوگوں نے اس جھوٹے پروپیگنڈے پہ یقین کر لیا ۔
15،اپریل1945 ء کو جنگی جرائم کے نورمبرگ ٹریبونل کے سامنے آشووٹز کیمپ کے نازی کمانڈر روڈلف یاس نے اعترافِ جرم کرتے ہوئے کہا کہ ’’ مئی 1940 ء سے دسمبر 1943 ء کے دوران اس کے کیمپ میں پچیس لاکھ لوگوں کو گیس چیمبر ز اور بھٹیوں میں جلا کر ہلاک کیا گیا، برطانوی فوج کے انٹیلی جنس سارجنٹ برنارڈکلارک نے اس اعترافی بیان کے سامنے آنے کے چند سال بعد انکشاف کیا کہ اس نے اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ مل کر نازی کمانڈر روڈلف یاس پر شدید تشدد کر کے یہ اعترافی بیان لکھوایا تھا بقول اس کے روڈلف یاس پہ اتنا تشدد کیا گیا کہ اگر اس سے پچاس لاکھ یہودیوں کے قتل کا بیان بھی دلوایا جاتا تو وہ فوراًلکھ کر دے دیتا۔
1944 ء جولائی میں ماریکا فرینک نامی یہودی خاتون کو ہنگری سے آشووٹز کیمپ لایا گیا جو کہ جنگ میں زندہ بچ گئی تھی، جب اس سے گیس چیمبرز کے متعلق شہادت دینے کے لئے کہا گیا تو اس نے شہادت دی کہ ’’میں نے قید کے دنوں میں گیس چیمبر ز کے بارے میں نا تو کبھی سنا اور نا ہی دیکھا یہ سب باتیں میں نے رہائی کے بعد سنی ‘‘ پرنسٹن یونیورسٹی کے یہودی پروفیسر آرنومائر نے اپنی کتاب ’’ آخری حل ‘‘ جو کہ 1989 ء میں شائع ہوئی میں لکھا کہ آشوو ٹز کیمپ میں یہودی ہلاکتیںزیادہ تر وباء اور دئگر قدرتی وجوہات کی بنا پر ہوئیں ،آشوو ٹز کیمپ میں ہلاکتوں پر خود نازی حکام میں تشویش پائی جاتی تھی چنانچہ حکام نے کیمپ کے کمانڈروں اور ڈاکٹروں کو خط کے ذریعے قیدیوں کی خوراک کی نگرانی پہلے سے زیادہ کرنے اور کیمپ انتظامیہ سے ملکر بہتر رہائشی سہولیات پر مبنی تجاویز ترتیب دینے کی ہدایات جاری کیں ، کیمپ انتظامیہ کے نام لکھا گیا یہ خط جنگ کے بعدقبضے میں لی گئیں دستاویزات میں موجود تھا ، فرانس ، بیلجیئم ، آسٹریا،رومانیہ،سلواکیہ،چیک ری پبلک،لتھوانیا،پولینڈ،جرمن ،سوئٹزرلینڈ اور اسرائیل میں ہولوکاسٹ واقعے کا انکار ایک جرم ہے ،ریڈکراس کو دوسری جنگِ عظیم میں نازیوں کے تمام کیمپوں تک رسائی حاصل تھی ریڈکراس کے چارلس بیڈرمین کے پاس تمام اطلاعات دستاویزی صورت میں موجود تھیں جو کہ چودہ ملین صفحات پر مشتمل ہیں ان دستاویزات تک کسی ملک کی رسائی نا ممکن ہے یہ اسرائیلیوں کی رسائی تک محدود ہیں جو ان دستاویزات کو تحقیق کر کے حقیقت آشکار کرنا چاہتے ہیں ان کی رسائی نا ممکن ہے۔
یہودیت کے قادیانی فرقے کا صدر دفتر اسرائیل کے شہر حائفہ میں واقع مائونٹ کارمل کے ایک محلے کبیر میں ہے اور اسرائیلی فوج میں ایک معقول تعداد میں اپنی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں جس کا ذکر برطانوی یہودی ڈاکٹر آئی ٹی نومی نے اپنی کتاب ’’ اسرائیل اے پروفائل ‘‘ میں کیا ہے ، یہودیوں کایہ فرقہ مرزا غلام احمد کو اپنا نبی مانتا ہے، صرف یہی عقیدہ انہیں دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا سبب نہیں،بلکہ مرزا غلام احمد نے ایک انسان ہوتے ہوئے اللہ کی ذات پر بہت بے ہودہ قسم کے الزامات لگا کر اپنے آپ کو خدا بھی قرار دیا۔یہ وہ الزامات ہیں جو نوع انسان کے کسی فرد نے اللہ تعالیٰ کی ذات پر کبھی لگانے کا سوچا بھی نہ ہوگا۔یہودیت اور قادیانیت من گھڑت مفروزوں پہ دنیا میں ہمدردیاں حاصل کر کے دنیا میں انتشار پیدا کر رہے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024