اس بار عیدالفطر کی خوشی اور کرونا وبا کی سنگینی نے ایک ساتھ ہنسنے اور رونے کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ رمضان المبارک کی روح پرور ساعتوں میں صبرورضا کے امتحان میں سرخرو ہونے والے خوش قسمت چہرے عبدالفطر کو اپنے روایتی انداز میں منانے کیلئے کرونا کی پابندیوں سے آزاد کیا ہوئے کہ سارے خطرات کو بھول گئے، بازاروں میں وہ دھکم پیل نظر آئی کہ ابھی نہیں یا کبھی نہیں ۔ لاک ڈائون کی نرمی سے غیرضروری فائدہ اٹھانے والوں سے سب سے زیادہ وہ ہراول دستے یا فرنٹ لائن سپاہ پریشان ہوئی جس کے کندھوں پر اور زیادہ بوجھ بڑھنے کے امکانات ہیں۔ ڈاکٹروں اور معاون طبی عملے کی سپاہ، کرونا وباء کا فرنٹ لائن پر مقابلہ کرنے والوں کو پہلے اپنے سرکاری منتظمین سے گلہ تھا کہ ایک طرف ان کا حوصلہ بڑھانے اور ان کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ’’سلیوٹ‘‘ کا اہتمام کیا جارہا ہے اور دوسری طرف عملی طور پر انکے اس جذبے کا مذاق اڑایا جارہا ہے جس کا اظہار وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر کرتے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر اور معاون طبی عملے کا کہنا ہے کہ مختلف حکومتی زعما نے میڈیا میں تواتر سے یہ اعلان کیا کہ حکومت ڈاکٹروں کو ایک اضافی تنخواہ دیگی تاکہ وہ زیادہ خوشی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ پوری قوم کو یا تاثر ملا کہ اگر ڈاکٹروں اور معاون عملے نے سیدھا موت کے منہ میں کھڑے ہوکر اپنے فرائض انجام دیئے ہیں، دے رہے ہیں تو اس کا ایک صلہ تو اللہ تعالیٰ دے گا لیکن اس کا کچھ صلہ حکومت کی طرف سے ان کو اضافی تنخواہ کی صورت میں بھی ملنے لگا ہے مگر عملی طور پر وہ ہوا جو ہمارے ہاں ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے پہلے تو حکومت کے شعبہ صحت کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ اضافی تنخواہ، صرف ان ڈاکٹروں کو ملے گی جنہوں نے کرونا وارڈوں میں ڈیوٹی دی ہوگی ۔ اس کے بعد مزید خوشخبری دی گئی کہ جن ڈاکٹروں نے ایک مہینہ میں 84 گھنٹے کرونا وارڈ میں ڈیوٹی دی ہوگی، صرف وہ ایک اضافی بنیادی تنخواہ کے حق دار ہوں گے۔ اب صرف ایک میوسپتال لاہور کی مثال لیجئے ۔ کرونا وارڈ میں صرف ایک دن ڈیوٹی دینے کے بعد ڈاکٹر ایکس پوز ہوجاتا ہے۔ اس کیلئے اسے اگلے ہفتے عام میڈیکل وارڈ یا ایمرجنسی میں ڈیوٹی دینے کیلئے بھیج دیا جاتا ہے تو اسے کرونا وارڈ کی ڈیوٹی کے 84 گھنٹے پورا کرنے کیلئے کتنا عرصہ لگے گا، گویا اس طرح کے گھنٹے پورے کرنے کا فیصلہ ڈاکٹروں اور طبی عملے کے ساتھ سنگین مذاق کرنے کے مترادف ہے پھر میوہسپتال اس وقت لاہور میں کرونا مریضوں کے علاج معالجے کیلئے مرکزی علاج گاہ کا درجہ حاصل کئے ہوئے ہے۔ پورا ہسپتال یعنی اس کے تمام وارڈ کرونا وائرس سے ’’اٹے‘‘ ہوئے ہیں۔ کسی بھی وار میں کوئی بھی ڈاکٹر یا طبی عملہ کام کرے گا تو گویا وہ یہ خطرہ مول لے کر کام کرے گا کہ خدانخواستہ وہ کرونا وباء میں خود بھی مبتلا ہوسکتا ہے تو ان حالات میں سارے ڈاکٹروں کیلئے یہ اضافی تنخواہ کیوں نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ میوہسپتال سمیت لاہور اور ملک کے بہت سے دوسرے ہسپتالوں کے گائنی، ای این ٹی اور درما سمیت مختلف وارڈوں کے متعدد ڈاکٹر اور لیڈی ڈاکٹر اور طبی عملہ کرونا کے مرض میں مبتلا ہوا ہے اور کتنے ہی جان جان آفریں کے سپرد کر بیٹھے ہیں۔ دوسروں کیلئے اپنی زندگی دائو پر لگانے کے پس منظر میں حوصلہ اور قدر دانی کا ملک بھر میں ایک معیار ہوتا تو پھر بھی کوئی بات تھی۔ یہاں تو یہ ہورہا ہے کہ لاہور میں واسا کے ملازمین کو بلا امتیاز ایک اضافی تنخواہ، واپڈا ملازمین کو ایک اضافی تنخواہ یہاں تک کہ شعبہ صحت کے ملازمین کو ایک اضافی تنخواہ کے نوٹیفکیشن جاری ہوئے ہیں جنہیں میں نے خود پڑھا ہے لیکن ڈاکٹروں، لیڈی ڈاکٹروں اور نرسوں سمیت معاون طبی عملہ کیلئے ابھی تحقیق ہورہی ہے ، کمیٹیاں بن رہی ہیں کہ کس کس ڈاکٹرنے ایک مہینے میں کرنا ڈیوٹی کے 84 گھنٹے پرے کئے ہیں۔ اس وقت ملک بھر کی طرح لاہور کے مختلف ہسپتالوں خاص طور پر میوہسپتال ، پی آئی سی ، لیڈی ولنگڈن سمیت مختلف ہسپتالوں میں کئی ڈاکٹر ہمت اور حوصلے کے ساتھ اپے ہم وطنوں کا علاج کرتے ہوئے سنگین وباء کا شکار ہوچکے ہیں۔ حکومت کے ذمہ داران کو طبی عملے کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے اگر چہ بعض عناصر کی طرف سے حکومت کو زچ کرنے کیلئے (’’جیسے کہ ’’ایکسپو سنٹر‘‘ میں قائم کرونا سنٹر کی کروڑوں روپے کی لاگت پر مبنی ایک تحریک پر شور مچا) بھی بہت کچھ کیا جارہاہے اور وزیر صحت پنجاب اور متعلقہ حکام صرف ایک شخصی یوٹیوب چینل کی آدھ گھنٹہ کی پریس کانفرنس کرکے وضاحت کرتے رہے لیکن وہ مسائل جو حقیقی ہیں اور جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے ، اپوزیشن کو یہ مواقع دے سکتے ہیں کہ وہ حکومت کیخلاف پوائنٹ سکورنگ کریں۔ حکومت کو اپنے بیانات کی لاج رکھنا چاہئے اور کم از کم عیدالفطر کے موقع پر صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024